ڈی ایچ اے کا الاٹ شدہ، سمندر سے حاصل کردہ زمین کی تفصیلات دینے سے گریز

اپ ڈیٹ 02 دسمبر 2021
عدالت نے مختلف کنٹونمنٹ بورڈز کو نوٹسز جاری کردیے — فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز
عدالت نے مختلف کنٹونمنٹ بورڈز کو نوٹسز جاری کردیے — فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو تمام الاٹ شدہ زمین اور سمندر سے حاصل کردہ زمین کی دستاویزات اور ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

عدالت نے یہ ہدایات آفیشل اسائنی (کسی کام کے لیے سرکاری طور پر مقرر کردہ شخص) کی اس شکایت پر جاری کیں کہ ڈی ایچ اے مطلوبہ اعداد و شمار فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس ذوالفقار احمد خان کی سربراہی میں ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن، کنٹونمنٹ بورڈ فیصل، کنٹونمنٹ بورڈ ملیر، کراچی کنٹونمنٹ بورڈ اور دیگر کو 15 دسمبر کے لیے نوٹسز جاری کردیے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے ڈی ایچ اے کو مزید زمین حاصل کرنے سے روک دیا

قبل ازیں ایک حکم میں عدالت کی جانب سے ان علاقوں کو عوام کے لیے مختص مقامات کو کسی تجارتی یا فائدہ مند مقاصد کے لیے استعمال کرنے یا وہاں تھرڈ پارٹی کا مفاد پیدا کرنے سے روکا گیا تھا۔

حالیہ درخواست میں اس عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر ان اتھارٹیز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی گئی ہے۔

جس پر عدالت نے ڈی ایچ اے کو دیگر منصوبوں کے لیے الاٹ کی گئی زمین کا ریکارڈ بھی شیئر کرنے کی ہدایت کی اور سول ایوی ایشن اتھارٹی اور پورٹ قاسم اتھارٹی کو بالترتیب کمرشل پراپرٹیز اور حاصل کی گئی زمین کا ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیا۔

بینچ نے سندھ حکومت کو فوکل پرسن مقرر کرنے کی ہدایت کی تاکہ وہ آفیشل اسائنی کو حاصل شدہ زمین کی ملکیت اور قبضے کے بارے میں متعلقہ معلومات فراہم کرے۔

عدالت میں 6 افراد نے وسل بلوور پروٹیکشن اینڈ ویجیلنس کمیشن آرڈیننس کے تک درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: لگتا ہے کہ فوج 'سب سے بڑا قبضہ مافیا' بن گئی ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

درخواست کی سماعت میں آفیشل اسائنی ڈاکٹر چوہدری وسیم اقبال نے سمندر سے حاصل کردہ زمین کے معائنے اور 22 نجی اداروں کے تجارتی مقامات کی تفصیلات فراہم کرنے کے عدالتی حکم پر عبوری تعمیلی رپورٹ پیش کی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ آفیشل اسائنی نے ڈی ایچ اے اور دیگر مدعا علیہان کو مطلوبہ ریکارڈ اور دستاویزات فراہم کرنے اور مقررہ مدت کے اندر تعمیل کرنے کے لیے فوکل پرسن مقرر کرنے کے لیے نوٹس جاری کیے تھے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ڈی ایچ اے کے لا افسر کے مؤقف سے یہ ظاہر ہوا کہ شاید ڈی ایچ اے جان بوجھ کر دستاویزات پیش کرنے سے گریز کر رہا ہے جبکہ مدعیان نے ڈی ایچ اے کو ابتدائی طور پر الاٹ شدہ زمین سے متعلق 1973 کے ماسٹر پلان کی کاپی فراہم کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ آرکیٹیکٹ ماروی مظہر سمندر سے حاصل کردہ زمین کے سلسلے میں رضاکارانہ طور اپنی خدمات فراہم کرنے اور طول و عرض کا خاکہ بنانے کے لیے آئی تھیں اور ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ حاصل کی گئی زمین کی فضائی نقشہ سازی کریں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی ایچ اے والوں کا بس چلے تو سمندر میں شہر بنا لیں، جسٹس گلزار

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ڈی ایچ اے میں 6 املاک کے معائنے کے علاوہ عہدیداروں نے 29 نومبر کو ملٹری اسٹیٹ آفس اور پاک فضائیہ کے زیر انتظام کچھ دیگر مقامات مثلاً فالکن مال، پی اے ایف میوزیم، دی وینیو، دی سگنیچر اینڈ امپیریل ویڈنگ ہالز کا معائنہ کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پی اے ایف بیس فیصل کے اسکواڈرن لیڈر نے آفیشل اسائنی کے خط کے جواب میں بتایا کہ پی اے ایف بیس فیصل کی کمان انتظامیہ کے ماتحت کوئی تجارتی سرگرمی جاری نہیں ہے جبکہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں زیر تعمیر فالکن مال کی سائٹ پر بھی تمام تجارتی سرگرمیاں روک دی گئی ہیں اور مال کے سائن بورڈز بھی ہٹا دیے گئے ہیں۔

آفیشل اسائنی نے بینچ سے درخواست کی کہ ڈی ایچ اے کو ابتدا میں الاٹ کردہ زمین اور بعد میں ملنے والی زمین چاہے وہ سمندر سے حاصل کی گئی ہو یا کسی وفاقی یا صوبائی محکمے نے دی ہو، اس کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی جائے۔

انہوں نے ڈی ایچ اے کو دوسری کمپنیوں کو فروخت کی گئی زمین کے علاوہ اپنے قبضے میں دوبارہ دعویٰ کردہ زمین کی ٹائیٹل ڈیڈ کو شیئر کرنے کی ہدایت کرنے کی بھی درخواست کی۔

چانچہ بینچ نے آفیشل اسائنی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت 15 دسمبر تک ملتوی کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں