کورونا وبا کے دوران نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی

اپ ڈیٹ 02 دسمبر 2021
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کووڈ 19 وبائی بیماری کے پھیلنے کے بعد اتھارٹی نے خریداری کا عمل شروع کیا—فائل فوٹو: اے جی پی ویب سائٹ
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کووڈ 19 وبائی بیماری کے پھیلنے کے بعد اتھارٹی نے خریداری کا عمل شروع کیا—فائل فوٹو: اے جی پی ویب سائٹ

اسلام آباد: آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے 2020 میں کورونا وائرس وبا کے دوران نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے خریداری اور اسٹاک میں نہ صرف مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے بلکہ وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے اتھارٹی مکمل تیار نہیں تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے کووِڈ 19 پر کیے گئے اخراجات کی آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ اتھارٹی قومی منصوبہ کو سالانہ بنیادوں پر اپ گریڈ کرنے میں ناکام رہی، جو کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2010 کے تحت ضروری ہے۔

مزیدپڑھیں: کورونا سے متعلق اخراجات میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف

اس میں کہا گیا کہ اس کی وجہ سے کوویڈ 19 کے تناظر میں اتھارٹی کی منصوبہ بندی کے عمل میں تعطل کی صورتحال پیدا ہوگئی۔

رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ این ڈی ایم اے نے 250 بستروں پر مشتمل آئسولیشن ہسپتال اور انفیکشنز ٹریٹمنٹ سینٹر (آئی ایچ آئی ٹی سی) اسلام آباد کی تعمیر کے لیے چین کی جانب سے عطیہ کیے گئے 40 لاکھ ڈالر کو برقرار رکھا لیکن کووڈ 19 سے لڑنے کے لیے فنڈز کو استعمال کرتے ہوئے تعمیراتی کام ایف ڈبلیو او کو تفویض کیا۔

این ڈی ایم اے ایف ڈبلیو او کو ادا کی گئی پیشگی ادائیگی کے واؤچرز وغیرہ حاصل کرنے میں بھی ناکام رہا اور آئی ایچ آئی ٹی سی کی تعمیر اور حج کمپلیکس، راولپنڈی کی تزئین و آرائش، کراچی میں قرنطینہ سینٹر کی سہولیات کی فراہمی اور نیشنل کنٹرول روم کا قیام کے لیے 69 کروڑ روپے کی ایڈجسمنٹ بھی نہیں کی گئی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کووڈ 19 وبائی بیماری کے پھیلنے کے بعد اتھارٹی نے خریداری کا عمل شروع کیا اور چین سے براہ راست ہنگامی خریداری شروع کی جس کا تعلق بنیادی طور پر بائیو میڈیکل آلات، ٹیسٹنگ کٹس اور ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای) سے ہے۔

مزیدپڑھیں: مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کا کورونا فنڈز کے آڈٹ کا مطالبہ

چین سے 30 جون 2020 تک کل خریداری تین مراحل میں 6 کروڑ 22 لاکھ ڈالر تھی اور این ڈی ایم اے نے چین میں ممکنہ دکانداروں سے رابطہ کیا لیکن اس حوالے سے کوئی دستاویزی ثبوت دستیاب نہیں تھا اور نہ ہی ٹیکنیکل کمیٹی کے درمیان ویڈیو کانفرنس کے منٹس تھے۔

این ڈی ایم اے 123 کیسز میں 2ارب، 80 لاکھ ڈالر کے 11 دیگر کیسز میں کووڈ 19 پروکیورمنٹس سے متعلق اشیا کی تاخیر سے فراہمی پر سپلائرز سے لیکویڈیٹڈ ڈیمیجز (ایل ڈی) چارجز کی وصولی میں بھی ناکام رہا۔

آڈٹ رپورٹ میں نمایاں ہونے والی بے ضابطگیوں میں زیادہ نرخوں پر وینٹی لیٹرز کی خریداری پر سرکاری خزانے کو 19 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔

آڈٹ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ این ڈی ایم اے کو کنٹریکٹ مینجمنٹ کے عمل اور اندرونی کنٹرول کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

دفاعی خدمات

آڈٹ رپورٹ میں دفاعی سروسز کے ریکارڈ میں تقریباً 3.87 ارب روپے اور 70 لاکھ ڈالرکی کمی کی بھی نشاندہی کی گئی۔

کووڈ 19 وبائی امراض کے دوران، پاکستان آرمی کی مرکزی خریداری ڈائریکٹر جنرل پروکیورمنٹس (آرمی) نے کی تھی جبکہ پاکستان ایئر فورس اور پاکستان نیوی کے لیے یہ بالترتیب ڈائریکٹر پروکیورمنٹ (ایئر) اور ڈائریکٹر پروکیورمنٹ (نیوی) نے کی۔

اس کے علاوہ خریداری سینٹرل آرڈیننس ڈپوز (سی او ڈی)، میڈیکل ڈائریکٹوریٹ جی ایچ کیو اور اس کے زیر کنٹرول ہسپتالوں نے مقامی ادویات اور الیکٹرو میڈیکل آلات کی خریداری کی۔

سب سے سنگین آڈٹ اعتراض ایک ارب 89 کروڑ روپے پر مشتمل ہے، آڈیٹرز نے بتایا کہ بجٹ ڈائریکٹوریٹ جی ایچ کیو نے گزشتہ برس 30 جون کو پاکستان آرمی کو کووڈ 19 سے لڑنے کے لیے 4 ارب 86 کروڑ روپے مختص کیے تھے۔

مزیدپڑھیں: دو درجن سے زائد سرکاری اداروں کا آڈٹ کرانے سے انکار

تاہم سی ایم اے (آرسی) کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کووڈ 19 کے اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے 3 ارب 48 کروڑمختص کیے گئے تھے جس کے نتیجے میں کووڈ 19 کی مجموعی مختص رقم میں ایک ارب 38 کروڑروپے کا فرق تھا۔

جبکہ اپنی طرف سے سی ایم اے (آر سی) راولپنڈی نے کووڈ 19 سے متعلق ایک ارب 42 کروڑ روپے کی ادائیگیاں جاری کیں لیکن اس کا اپنا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ کووڈ 19 کے مجموعی اخراجات 91 کروڑ روپے تھے جس کے نتیجے میں 51 کروڑ 10 لاکھ روپے کا فرق آیا۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے آڈٹ شدہ اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کی سفارش کی ہے تاکہ آڈٹ کی سرگرمی سے مکمل فائدہ اٹھایا جا سکے۔

تبصرے (0) بند ہیں