خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ بل منظور

07 دسمبر 2021
اجلاس میں کمیٹی کے ارکان نے بل کا شق وار جائزہ لیا — فائل فوٹو / اے پی پی
اجلاس میں کمیٹی کے ارکان نے بل کا شق وار جائزہ لیا — فائل فوٹو / اے پی پی

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ (ترمیمی) بل 2021 کی منظوری دے دی، بل میں مجرموں کو سخت سزائیں دینے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ کام کی جگہ کی تعریف کو مزید وسیع کرنے اور عدالتوں کو ایسے مقدمات کا 90 روز میں فیصلہ کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اجلاس میں کمیٹی کے ارکان نے بل کا شق وار جائزہ لیا اور خواتین کارکنوں اور ماہرین قانون سے مشاورت کرنے کے بعد وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی جانب سے پیش کی گئیں شقوں میں اپنی سفارشات شامل کرنے پر اتفاق کیا۔

کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر شیری مزاری نے کہا کہ پچھلے ایکٹ میں ملازم، کام کی جگہ اور ہراساں کرنے کی تعریفیں بہت محددو تھیں جبکہ مجوزہ بل میں قانون کو مزید مؤثر بنانے کے لیے تعریفوں کو وسیع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے ترامیم میں کچھ خامیوں کی نشاندہی کی اور انہیں دور کرنے کو کہا، انہوں نے اعتراف کیا کہ پچھلا قانون محدود تعریفوں کی وجہ سے کچھ معاملات کو حل نہیں کر رہا تھا۔

سینیٹ قائمہ کمیٹی کے ارکان نے بالآخر بل منظور کرلیا، بل کو اب حتمی منظوری کے لیے سینیٹ میں واپس بھیجا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: کام کی جگہ پر ہراسانی کے قانون کا دائرہ محدود ہے، سپریم کورٹ

مجوزہ بل میں کھیلوں میں حصہ لینے اور آن لائن کام کرنے والی خواتین کے تحفظ کو بھی قانون کا حصہ بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ قانون کا دائرہ کار جامعات اور آرٹ اسٹوڈیوز تک بڑھا دیا گیا ہے، مجوزہ قانون کے تحت گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنا بھی جرم ہوگا۔

مجوزہ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ ہراساں کرنے میں ملوث پائے جانے والے سرکاری ملازم کو نوکری سے برخاست اور پروموشن معطل کرنے کی سزا دی جا سکتی ہے جبکہ پیشہ ورانہ شعبوں سے وابستہ افراد کے لائسنس منسوخ کردیے جائیں۔

نئے قانون کے تحت صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک بھی قابل سزا جرم ہوگا، پارلیمنٹ سے منظور ہونے کی صورت میں عدالتوں کو 90 دنوں کے اندر ہراساں کرنے کی درخواستوں کا فیصلہ کرنا ہوگا۔

بل کے ساتھ منسلک دستاویزات کے مطابق، مجوزہ قانون کا مقصد موجودہ قانون میں موجود خامیوں کو دور کرکے افرادی قوت میں خواتین کی بڑھ چڑھ کر شمولیت کو آسان بنانا ہے۔ مجوزہ بل قانون کے دائرہ کار کو مزید وسیع کرتا ہے تاکہ بعض پیشوں اور روزگار کے ماڈلز کو شامل کیا جا سکے جن کا موجودہ قانون واضح طور پر ذکر نہیں کرتا۔

مجوزہ ترامیم کے بعد بل کے ہر قسم کے رسمی اور غیر رسمی کاموں میں مصروف لوگوں کو ہراساں کرنے سے تحفظ فراہم کیا جائے گا، ترمیمی بل کام کی جگہ پر ہونے والی مختلف قسم کی ہراسانی کے حوالے سے بھی وضاحت فراہم کرے گا۔

بل میں ترمیم کا مقصد اپنے شہریوں کے لیے پاکستان کی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا اور انہیں ان کے وقار کی ضمانت دینا ہے جبکہ پیشوں میں جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی روک تھام اور کام کی جگہ پر خواتین کی شرکت میں اضافے کا ہدف حاصل کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: 'خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق قوانین بہت نرم ہیں'

قائمہ کمیٹی کی سانحہ سیالکوٹ کی مذمت

اجلاس کے آغاز میں کمیٹی کے چیئرمین ولید اقبال کی تجویز پر اراکین نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی اور گزشتہ ہفتے سیالکوٹ میں شہریوں کے تشدد سے ہلاک ہونے والے سری لنکن شہری کو خراج عقیدت پیش کرنے کی قرارداد منظور کی۔

قرارداد کے ذریعے کمیٹی نے 3 دسمبر 2021 کو سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا دیاوادنا کے افسوسناک انتقال پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور مرحوم کے اہل خانہ ،سری لنکا کی حکومت اور عوام کے ساتھ دلی تعزیت اور افسوس کا اظہار کیا۔

کمیٹی ارکان نے کہا کہ اس گھناؤنے جرم کو انجام دینے والے پرتشدد ہجوم کی جانب سے ظلم کی مذمت کرتے ہیں اور ریاست کے تمام اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان مجرموں کو قانون کےمطابق سخت سزا دی جائے اور معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت کے رجحان کو روکنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھائےجائیں۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سیمی ایزدی، فلک ناز، قرۃ العین مری، طاہر بزنجو، مہر تاج روغانی، گوردیپ سنگھ، عابدہ محمد عظیم اور فیصل سبزواری نے شرکت کی جبکہ سینیٹرز کیشو بائی اور شیری رحمٰن خصوصی دعوت پر شریک ہوئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں