جج کو انکوائری کے بغیر ہٹانے سے غلط مثال قائم ہوسکتی ہے، وکیل شوکت صدیقی

07 دسمبر 2021
جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربینچ نے سماعت کی—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربینچ نے سماعت کی—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کسی جج کی برطرفی سے قبل ان پر لگنے والے الزامات پر انکوائری لازمی قرار دیتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کی سماعت کی۔

مزید پڑھیں: ‘آپ مجھے پھانسی دینا چاہیں تو دے دیں’، شوکت صدیقی کا سپریم کورٹ میں سخت مؤقف

جسٹس عمر عطا بندیال نے سابق جج شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان سے کہا کہ آپ نے فیض آباد دھرنا کیس میں فیصلے میں لکھا کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) بھی مدعی تھی تو تحریک لبیک کا مدعا کیا تھا۔

حامد خان نے کہا کہ ٹی ایل پی کی شکایت تھی کہ الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم واپس لی جائے، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ یعنی پٹیشن دھرنے کے دوران ہائی کورٹ میں دائر کی گئی، فیض آباد دھرنا کیس میں 27 نومبر 2017کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے حامد خان سے کہا کہ آپ نے کہا یہ اہم فیصلہ تھا جس میں فیض آباد دھرنا ختم کرنے کے معاہدے کا ذکر بھی ہے۔

حامد خان نے کہا کہ اس معاہدے کے حوالے سے جسٹس شوکت صدیقی نے دو نکات اٹھائے تھے، معاہدے پر جنرل فیض کے دستخط بھی تھے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی نے حاضر سروس افسران پر آبزرویشنز بغیر نوٹس کے دیں، کس طرح فاضل جج نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا؟۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ جج نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا تھا، جس پر جسٹس سردار طارق نے کہا جب فوج اور اس کے حاضر سروس افسران کے خلاف شکایت نہیں تھی تو کیا جج نے ازخود نوٹس لیا، کیا ہائی کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار تھا۔

حامد خان نے بتایا کہ اگر کوئی غیر قانونی بات سامنے آئے تو عدالت اس پر نوٹس لے سکتی ہے، جسٹس سردار طارق کا کہنا تھا کہ فاضل جج نے حکم میں کہا کہ جو عمل کیا گیا وہ غیر قانونی ہے، جس حاضر سروس افسر کے بارے میں کہا کہ غیر قانونی عمل کیا، پھر فوج کا وہی افسر آپ کے گھر میں بیٹھا تھا، کیوں؟۔

مزید پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کیس: 'غصہ آئی ایس آئی پر تھا، تضحیک عدلیہ کی کردی گئی'

جسٹس سردار طارق نے کہا کہ پھر آپ کہتے ہیں کہ وہ افسر آپ کے گھر آیا اور اثر انداز ہونے کی کوشش کی، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ جس فیصلے کے ساتھ تعلق جوڑ رہے ہیں ان پر سپریم جوڈیشل کونسل نے دو نوٹس جاری کیے تھے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹسز پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، تو وکیل حامد خان نے کہا کہ یہی عمل بتاتا ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کے خلاف فیصلہ دینے والی سپریم جوڈیشل کونسل آئی ایس آئی کے کتنے زیر اثر تھی۔

جسٹس عمر عطابندیال نے حامد خان کی دلیل پر کہا کہ خان صاحب آپ ایک سینئر وکیل ہیں ایسے نہ کریں، ہم آپ کی عزت کرتے ہیں لیکن اب آپ نے باونڈری کو ہٹ کرنا شروع کر دیا ہے، برائے مہربانی اس طرح کے الزامات مت دھریں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم کہتے ہیں ہمارے فیصلوں کو جتنا چاہیں تنقید کا نشانہ بنائیں، فیصلوں کے پیچھے جا کر ججوں پر الزامات نہ لگائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جج بول نہیں سکتے، ان کا کوئی پی آر او بھی نہیں ہوتا، میں بھی سپریم جوڈیشل کونسل کا رکن ہوں، جس پر حامد خان نے کہا اس وقت کی سپریم جوڈیشل کونسل جس کا آپ حصہ نہیں تھے۔

جسٹس عمر عطابندیال نے حامد خان کو مخاطب کرکے کہا کہ محترم آپ کے مؤکل نےتقریر عدلیہ کے خلاف کی، فوج کے خلاف کرتے تو پتہ چل جاتا ان کا کتنا زور ہے، جس پر حامد خان نے کہا کہ میرے مؤکل نے عدلیہ کے حق میں بات کی۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ آپ کے مؤکل نے تقریر میں حدود سے تجاوز کیا۔

جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ تقریر کرنے پر شوکاز آیا، تقریر نہ ہوتی تو شوکاز نوٹس نہ ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کیس: کیا جج کو اس انداز میں گفتگو کرنی چاہیے؟ جسٹس اعجازالاحسن

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ جج کی بار یا پبلک فورم پر تقریر حدود و قیود میں ہوتی ہیں، جج کا کام نہیں کہ اداروں یا حکومت کی تحقیر شروع کر دے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا جج ملک کی خارجہ پالیسی پر تقریر نہیں کر سکتا، بطور جج ایسی تقاریر کرنا ہمارا کام نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ بطور ہائی کورٹ کے جج جو تقریر کی وہ مس کنڈکٹ ہے۔

وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے مارشل لاء کے خلاف تقاریر کی تھیں، وکلا تحریک کے دوران چیف جسٹس نے بھی بار کونسلز میں جا کر تقاریر کیں۔

جسٹس سردار طارق نے کہا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے ادارے کی تضحیک نہیں کی تھی۔

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کسی جج کو نکالنے سے پہلے انکوائری لازمی قرار دیتا ہے، آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت الزامات کی انکوائری ضروری ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ انکوائری کے بغیر جج کو نکالنے کی مثال بن گئی تو کسی بھی جج کو کسی بھی بنیاد پر کبھی بھی برطرف کر دیا جائے گا۔

عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔

تبصرے (0) بند ہیں