کراچی: ڈان اخبار کے فوٹوگرافر پر عزیز آباد میں اہلکاروں کا تشدد

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2021
فیصل مجیب نے دعویٰ کیا کہ اہلکاروں نے ان کا پروفیشنل کیمرا اور سیل فون بھی توڑ دیا — فوٹو: امتیاز علی
فیصل مجیب نے دعویٰ کیا کہ اہلکاروں نے ان کا پروفیشنل کیمرا اور سیل فون بھی توڑ دیا — فوٹو: امتیاز علی

کراچی کے علاقے عزیز آباد میں نائن زیرو کے قریب متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم۔پاکستان) کے یوم شہدا کے اجتماع کی کوریج کے دوران ڈان اخبار کے فوٹوگرافر فیصل مجیب کو رینجرز اہلکاروں نے زدوکوب کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔

فیصل مجیب نے کہا کہ وہ یادگار شہدا پر آنے والوں کی کوریج کے حوالے سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے گئے تھے، جہاں جمعرات کی صبح سے ہی یادگار شہدا پر لواحقین پھولوں کے ساتھ پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: آئی ایس آئی کا صحافی پر حملے سے اظہارِ ’لاتعلقی‘

انہوں نے کہا کہ قبرستان کے مختلف داخلی راستوں پر میڈیا کے نمائندے کوریج کر رہے تھے لیکن اسی دوران رینجرز کے دستوں نے میڈیا کے نمائندوں کو حراست میں لینا شروع کر دیا۔

ڈان اخبار کے فوٹوگرافر نے بتایا کہ وہ ٹبہ ہسپتال کے ایمرجنسی گیٹ کے قریب کچھ فاصلے پر کھڑے تھے اور اسی دوران وہاں پر موجود چند کارکنوں نے پارٹی کے بانی قائد الطاف حسین کے حق میں نعرے بازی شروع کردی۔

انہوں نے کہا کہ نعرے بازی کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو حراست میں لینا شروع کر دیا اور ان کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ایک اور نمائندے محبوب احمد چشتی کو بھی پکڑ لیا۔

انہوں نے کہا کہ اہلکاروں کو بتایا کہ میں ڈان اخبار کا سینئر فوٹوگرافر ہوں اور مرحوم فوٹوگرافر مجیب رحمٰن کا بیٹا ہوں اور وہ اس حقیقت کی تصدیق اخباری تنظیم اور دیگر متعلقہ ذرائع سے بھی کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی لاپتہ صحافی مدثر نارو کے اہل خانہ سے ملاقات، تفصیلی رپورٹ طلب

ان کا کہنا تھا کہ لیکن اہلکاروں نے ان کی بات نہیں مانی اور انہیں زدوکوب کرنا شروع کردیا، انہیں تقریباً ایک گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

بعد ازاں پیرا ملٹری فورس کے ایک اہلکار نے تصدیق کے لیے ان کے پریس کارڈز کی نقل رکھنے کے بعد انہیں جانے دیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اہلکاروں نے ان کا پروفیشنل کیمرا اور سیل فون بھی توڑ دیا۔

دوسری جانب کراچی یونین آف جرنلسٹس نے روزنامہ ڈان کے فوٹوگرافر پر پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔

مزید پڑھیں: سال 2021 میں صحافیوں کی ریکارڈ تعداد کو جیل بھیجا گیا

کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر نظام صدیقی اور جنرل سیکریٹری فہیم صدیقی سمیت مجلس عاملہ کے تمام اراکین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ عزیزآباد میں ایک اسائنمنٹ کے دوران رینجرز اہلکاروں کی جانب سے فیصل مجیب کو پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی سے روکا گیا۔

انہوں نے کہا کہ فیصل کی جانب سے شناخت ظاہر کرنے کے بعد بھی اہلکاروں نے ناصرف انہیں کام نہیں کرنے دیا بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور ان کا کیمرہ بھی چھین لیا۔

بیان میں کہا گیا کہ کسی بھی صحافی کو اس کے ادارے کی جانب سے اسائنمنٹ ملتا ہے اور فیلڈ میں اسے اسائنمنٹ پورا کرنا اس کے فرائض کی ادائیگی میں شامل ہے، فیصل اپنے فرائض ادا کررہے تھے لیکن اس دوران انہیں تشدد کا نشانہ بنانا اور ایک گھنٹے تک غیرقانونی حراست میں رکھنا آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے۔

بیان میں وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید سے قومی اور صوبائی اسمبلی سے منظور کردہ جرنلسٹس پروٹیکشن ایکٹ کے تحت ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا جہاں اس ایکٹ میں ایسے کسی بھی اقدام سے صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں صحافیوں پر تشدد کا خاتمہ کیسے ممکن؟

کراچی یونین آف جرنلسٹس نے کہا کہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر کراچی سمیت ملک بھر کی صحافی برادری یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوگی کہ قومی اور صوبائی اسمبلی سے منظور کردہ بلوں کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ نہیں ہے اور ملک میں صحافی ان قوانین کے بعد بھی محفوظ نہیں ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں