وفاقی حکومت کی لاپتا شہری کے اہلِ خانہ کو 16 لاکھ روپے کی ادائیگی

14 دسمبر 2021
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا اس سے بڑی انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی ہوسکتی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا اس سے بڑی انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی ہوسکتی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

وفاقی حکومت نے 5 سال سے لاپتا شہری کے اہلِ خانہ کو اخراجات کی مد میں ابتدائی طور پر 16 لاکھ روپے ادا کردیے۔

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے چھٹی پر پاکستان آنے کے بعد لاپتا ہونے والے شہری عمران خان کے کیس کی سماعت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔

دوسرانِ سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب شاہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ 13 اگست کے عدالتی حکم کے مطابق وفاقی حکومت نے لاپتا شہری کے اہلِ خانہ کو اخراجات کی مد میں ابتدائی طور پر 16 لاکھ روپے ادا کر دیے۔

یہ بھی پڑھیں:لاپتا شہری کی بازیابی تک اہلخانہ کو ان کی تنخواہ کے برابر رقم کی ادائیگی کا حکم

جس پر عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا انہیں وفاقی حکومت کی جانب سے رقم کی ادائیگی ہوگئی ہے؟

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کچھ رقم ادا کی گئی ہے لیکن جو بیان حلفی میں ذکر کی گئی تھی وہ مکمل ادائیگی نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزارت انسانی حقوق کے سیکریٹری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا اس سے بڑی کوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے ساتھ ہی ہدایت کی کہ وہ لاپتا شہری کی بازیابی کا معاملہ دیکھیں۔

سیکریٹری وزارت انسانی حقوق نے عدالت کو یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ نے اس کیس کو پراسس کیا تھا اب میں دیکھ لیتا ہوں۔

بعدازاں عدالت نے عمران خان نامی شہری کے کیس کو دیگر لاپتا افراد کے کیسز کے ساتھ منسلک کرکے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔

مزید پڑھیں:لاپتا شہری کیس میں سرکاری حکام پر ایک کروڑ روپے جرمانہ

قبل ازیں رواں برس جولائی میں اس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ شہری لاپتا ہونے کے وقت جتنی تنخواہ لے رہا تھا اس کے برابر رقم اہل خانہ کو ماہانہ ادا کی جائے۔

اسی سماعت میں لاپتا شہری کی والدہ نے بتایا تھا کہ ان کا بیٹا کمپیوٹر انجینئر ہے اور متحدہ عرب امارات میں ملازمت کرتا تھا، 19 مئی 2015 کو لاپتا ہونے کے وقت اس کی تنخواہ 3 ہزار درہم تھی۔

عدالت مین دائر درخواست میں مدعی خاتون نے کہا تھا کہ ان کے بیٹے کو اسلام آباد کے علاقے جی-10 میں قائم ان کے گھر سے اٹھایا اور ڈبل کیبن گاڑی میں لے جایا گیا۔

درخواست کے مطابق عمران خان 5 سال قبل لاپتا ہوئے تھے اور اہلِ خانہ نے مقامی پولیس کے پاس مقدمہ بھی درج کروایا تھا لیکن پولیس انہیں بازیاب کروانے میں ناکام رہی۔

یہ بھی پڑھیں:لاپتا شخص کی بازیابی میں ناکامی، سیکریٹری داخلہ، پولیس افسران پر 60 لاکھ روپے کے جرمانے

درخواست گزار نے یہ معاملہ لاپتا افراد کے کمیشن کے سامنے بھی پیش کیا تھا اور سماعت کے دوران کمیشن نے کہا تھا کہ یہ معاملہ جبری گمشدگی کا ہے ساتھ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کی معلومات حاصل کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔

عمران خان، شادی شدہ تھے اور ان کا ایک 6 سالہ بیٹا بھی ہے تاہم ان کے اہلیہ نے اپنے شوہر کی طویل گمشدگی کے باعث خلع کا کیسز دائر کردیا تھا اور اسلام آباد کے فیملی جج نے شادی تحلیل کر کے بیٹے کو ماں کی تحویل میں دے دیا تھا۔

پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ عمران خان ایک تعلیم یافتہ پروفیشنل شخص تھے اور ان کے خلاف کسی بھی پولیس اسٹیشن میں کوئی مقدمہ درج نہیں تھا اگر ان کے خلاف کچھ موجود تھا تو انہیں قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے تھا۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ ان کی گرفتاری آئین کی ان دفعات کی خلاف ورزی ہے جو شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں