سانحہ ساہیوال: لاہور ہائیکورٹ کا ‘جھوٹی شہادت’ پر گواہان پر اظہار برہمی

21 دسمبر 2021
جنوری 2019 میں ساہیوال میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے ہلاکتیں ہوئی تھیں—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
جنوری 2019 میں ساہیوال میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے ہلاکتیں ہوئی تھیں—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

لاہور ہائی کورٹ کے جج نے سانحہ ساہیوال کے مقدمے کے ‘جھوٹی گواہی’ دینے پر گواہوں پر اظہار برہمی کیا جہاں اس واقعے میں پنجاب کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے 6 اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے 4 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

لاہور ہائی کورٹ میں سانحہ ساہیوال کے ملزمان کی بریت کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی جہاں مدعی مقتول خلیل کے بھائی محمد جلیل اور تمام 6 ملزمان صفدر حسین، احسن خان، محمد رمضان، سیف اللہ، حسنین اکبر اور ناصر نواز عدالت میں پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال واقعہ: سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج

جسٹس عبدالعزیز نے مدعی محمد جلیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ پہلے آپ نے ملک میں معاملہ سر پر اٹھایا ہوا تھا بعد میں ٹرائل کورٹ میں ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ جھوٹی شہادت دینے پر کیوں نہ آپ کو نوٹس دیں، محمد جلیل نے کہا کہ میں وکیل کرنا چاہتا ہوں، جس پر جج نے استفسار کیا کہ وکیل بعد میں کر لینا، پہلے یہ بتاو کہ عدالت میں یہ کیسے کہا کہ ہم کیس کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔

جسٹس عبدالعزیز نے کہا کہ جھوٹی شہادت آپ دیں اور گندگی عدالت پر ڈالیں، کیا مقتول آپ کا بھائی تھا۔

عینی شاہد وسیم بھی آج کی سماعت کے دوران عدالت میں پیش ہوئےاور دعویٰ کیا کہ ‘مجھے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ساہیوال نے یہ بیان دینے کو کہا تھا’۔

جسٹس عبدالعزیز نے ریمارکس دیے کہ دوسرا رخ بعد میں آتا ہے پہلے ملک کو پوری دنیا میں بد نام کر دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ برآمدگی کے گواہوں نے بھی کہہ دیا کہ ہمیں کچھ نہیں معلوم ہے، گواہ ٹی وی پر جو کہانیاں سناتے تھے ہم انہیں دیکھ کر روتے تھے لیکن بعد میں سب گواہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے تھے۔

پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ گواہوں کے منحرف ہونے پر ملزمان بری ہوئے تھے

مزید پڑھیں: ساہیوال: سی ٹی ڈی کی کارروائی، کار سوار خواتین سمیت 4 'مبینہ دہشت گرد' ہلاک

لاہور ہائی کورٹ نے ڈی پی او کیپٹن ریٹائرڈ محمد علی ضیا، مدعی جلیل کو ٹرائل کورٹ میں جھوٹی گواہی دینے اور دیگر گواہوں کو بھی حقائق چھپانے پر نوٹس جاری کر دیا۔

عدالت نے سماعت 17 جنوری تک ملتوی کردی۔

سانحہ ساہیوال

یاد رہے کہ 19 جنوری 2019 کو صوبہ پنجاب کے علاقے ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اہلکاروں نے ایک آلٹو کار پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک خاتون اور 13 سالہ لڑکی سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے، ابتدا میں ان افراد کے حوالے سے سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا کہ یہ اغوا کار تھے اور ان کے قبضے سے 3 مغوی بچوں کو بازیاب کرایا گیا ہے۔

بعد ازاں سی ٹی ڈی نے مقتولین کو دہشت گرد قرار دیا جبکہ حکام کے بیانات بدلتے رہے، یہاں تک ابتدا میں پولیس نے واقعہ کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا، جس کے بعد مقابلہ مشکوک ہوگیا، دوسری جانب واقعے میں 'بازیاب' کرائے گئے زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعے کے مشکوک ہونے کو مزید تقویت فراہم کی۔

واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں کو طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہوں نے بیان دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ شادی کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال پہلا مشکوک مقابلہ نہیں، ذمہ داروں کو سزا دینا ہوگی

پولیس نے کے مقتول خلیل کے بھائی کی مدعیت میں ی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا، جس میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

مذکورہ واقعہ کی تحقیقات کے حوالے سے پنجاب کے محکمہ داخلہ نے اس وقت کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس سید اعجاز حسین شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔

جے آئی ٹی کے دیگر 2 اراکین میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے نمائندے شامل تھے۔

ابتدائی طور پر ٹرائل ساہیوال میں شروع کیا گیا تھا تاہم بعد میں مدعی کی درخواست پر 17 جون کو لاہور ہائی کورٹ نے ٹرائل لاہور منتقل کردیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 49 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیا، جن میں مقتولین کے رشتہ دار ذیشان اور خلیل بھی شامل تھے۔

واقعے میں زخمی ہونے والے گواہان (مقتول خلیل کے بچے) فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ کے دوران مشتبہ افراد کو نہیں پہچان پائے۔

اکتوبر 2019 میں عدالت نے شک فائدہ دیتے ہوئے ملزمان کو بری کردیا۔

عدالت نے کہا تھا کہ ملزمان کو اسلحہ فراہم کرنے والے عہدیدار نے بیان دیا کہ انہوں نے تمام اسلحہ اور گولیاں واپس کردی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں