آج قوتوں نے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹایا تو پختونخوا میں سب نے حشر نشر دیکھ لیا، مولانا فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2021
جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم پاکستان کی پارلیمانی سیاست کے حصے دار ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم پاکستان کی پارلیمانی سیاست کے حصے دار ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم کہہ رہے تھے کہ یہ حکومتیں جعلی ہیں اور آج ان قوتوں نے اپنا ہاتھ تھوڑا سا پیچھے ہٹایا تو آپ نے خیبر پختونخوا انتخابات میں حشر نشر دیکھ لیا اور پورے ملک میں یہی صورتحال بنے گی۔

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے حکمران مدارس کے علوم اور ان کی اہمیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، وہ قرآن و حدیث کے علوم کی حفاظت کرنے کے بجائے انہیں غیرمؤثر کرنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: عمران خان نے پاکستان کو جس حالت پر پہنچایا ہے دوبارہ اٹھانا چیلنج ہے، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر میں سرکار کی نگرانی میں قائم ہونے والا پہلا مدرسہ علی گڑھ کا تھا اور اس مدرسے میں نصاب سے چار مضامین قرآن کے علوم، حدیث کا علم، فقہ کا علم اور فارسی زبان کو خارج کیا گیا اور آج پاکستان میں سرکار کی نگرانی میں ان چار علوم کا کہیں تذکرہ نہیں سنا جاتا، برائے نام دینی کتب کالج اور اسکولوں میں پڑھانے کی بات کرتے ہیں تاکہ کوئی انہیں انگریز کا جانشین نہ کہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں لیکن یہ قومی دھارا کیا ہوتا ہے، ہم قومی دھارے میں آنے کے لیے تیار ہیں لیکن تم بھی ذرا اسلامی دھارے میں آنے کے لیے تیار ہو جاؤ، آپ تنگ نظر ہیں، ہم آپ کو برداشت کررہے ہیں ورنہ آپ تو ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ کا کہنا ہے کہ عجیب بات یہ ہے کہ امریکا بھی انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، ایک امریکی وفد نے آ کر مجھ سے کہا کہ افغانستان میں ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے اور خواتین کی تعلیم کا خیال رکھا جائے جس پر میں نے ان سے کہا کہ اس پر تو کوئی بھی اختلاف نہیں ہے لیکن جب آپ دوحہ میں معاہدہ کررہے تھے تو ان نکات میں یہ دو نکتے نہیں ڈال سکتے تھے اور اب یکطرفہ طور پر دو شرائط پیش کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم پوچھتے ہیں کہ کونسے انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، وہ انسانی حقوق جو تم نے گوانتناموبے میں انسانوں کے ساتھ کیا، جو ابوغریب اور بگرام جیل میں کیا، آج بھی ان کی دیواروں پر ان کا خون تمہارے مظالم کی گواہی دے رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن سمیت 20 سیاستدانوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں، وزیر داخلہ

ان کا کہنا تھا کہ جہاں اسلام کی بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں انتہاپسندی آ گئی لیکن ہم ڈیموکریٹس ہیں، ہم پاکستان کی پارلیمانی سیاست کے حصے دار ہیں، ہم ایک مثبت اور پرامن سیاست کی بات کرتے ہیں، ہم قومی دھارے میں ہیں اور ہم مستحکم پاکستان، مستحکم آئین اور مستحکم نظام کی بات کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے استحکام کے ذمے داروں نے اس کو دھاندلی کر کے غیرمستحکم بنایا ہے لہٰذا آپ ٹھیک ہو جائیں کیونکہ ہم ٹھیک ٹھاک لوگ ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اب تو آپ نے دیکھ لیا، جب ہم کہہ رہے تھے کہ نتیجے جعلی ہیں اور ان کی حکومتیں جعلی ہیں، دھاندلی کی پیداوار ہیں، آج ان قوتوں نے اپنا ہاتھ تھوڑا سا پیچھے کیا تو آپ نے خیبر پختونخوا میں انجام دیکھ لیا اور پورے ملک میں یہی صورتحال بنے گی۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں تمام وسائل اور پورے پشاور میں ساری انتظامیہ ان کی، سارے ایم این اے، ایم پی اے اور بیورو کریسی ان کی ہے لیکن تھوڑا سا ہاتھ ہٹا تو آپ نے حشر نشر دیکھ لیا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے لچے لفنگوں نے اپوزیشن رہنماؤں پر حملہ کیا، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو امن اور خوشحال معیشت کی ضرورت ہے، لفظ امن کا مطلب ہے کہ انسانی حقوق کا تحفظ ہو گا تو اس اعتبار سے ہمارا دین اسی کا علمبردار ہے لیکن جو لوگ اس طرح سوچتے ہیں ان کو آپ راستہ نہیں دیتے، کیونکہ یہ شکل و شباہت مغرب کو قبول نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں