اومیکرون کے بعد پاکستان کے شعبہ صحت پر اضافی دباؤ پڑنے کا خدشہ

اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2021
رپورٹ عوامی مقامات اور دفاتر میں ایس او پیز کی رجحان ختم ہونے کی عکاسی بھی کرتی ہے —فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
رپورٹ عوامی مقامات اور دفاتر میں ایس او پیز کی رجحان ختم ہونے کی عکاسی بھی کرتی ہے —فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ ’اومیکرون‘ کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باعث پاکستان کا صحت کا شعبہ نمایاں دباؤ میں مبتلا ہوسکتا ہے تاہم اب تک ملک میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز اور اس سے اموات میں کمی دیکھی جارہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بات کی نشاندہی منصفانہ اور شفاف انتخابات کے نیٹ ورک (فافن) کی جانب سے تیار اور شائع کردہ ’کووڈ 19 رسپانس اینڈ ریلیف گورننس مانیٹرنگ‘ نامی رپورٹ میں کی گئی۔

فافن نے کورونا وائرس سے متعلق رپورٹ تیار کرنے کے لیے چاروں صوبوں کے 64 اضلاع سے یکم اکتوبر سے 15 دسمبر 2021 تک کے اعداد و شمار جمع کیے، یہ اعداد و شمار کلیدی اسٹیک ہولڈرز سمیت اضلاع میں تعینات آزاد مشاہدین کے انٹرویوز پر مبنی ہیں۔

حکومتی ردعمل اور عوام کے رویے کا مشاہدہ بھی کرتے ہوئے نیٹ ورک نے بار بار کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے شعبہ صحت کی ترجیحات پر توجہ دینے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔

مزید پڑھیں: اومیکرون سے ری انفیکشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، ڈبلیو ایچ او

صحت کا نظام اب بھی دباؤ کا شکار ہے کیونکہ جنوری سے ستمبر کے دوران ڈینگی کے 48 ہزار 906 کیسز اور 183 اموات رپورٹ ہوئیں۔

رپورٹ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ حالات پر قابو پاتے ہوئے ایک جامع حکمت عملی استعمال کی جائے تاکہ آبادی کو اومیکرون ویرینٹ کے خطرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ویکسین لگوانے کے عمل میں اب بھی کام کرنے کی ضرورت ہے، بڑی تعداد میں شہریوں نے اب تک ویکسین نہیں لگوائی ہے، اومیکرون اور دیگر ویرینٹ سے ویکسین کے ذریعے ہی بچا جاسکتا ہے۔

رپورٹ میں ویکسین لگوانے کے عمل میں درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا کہ ویکسی نیشن کے عمل کو ملک کے دور دراز علاقوں تک وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: کووڈ کی پرانی اقسام سے متاثر افراد کو اومیکرون سے تحفظ نہ ملنے کا خدشہ

رپورٹ میں کہا گیا کہ محکمہ صحت کے عملے اور عوام کے درمیان گردش کرنے والی غلط معلومات اور افواہوں نے ویکسین مہم کو سست کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ غلط معلومات اور افواہوں کے خاتمے کے لیے وسیع مہم چلائے تاکہ شعبہ صحت کے عملے اور عوام کو صحیح معلومات فراہم کی جاسکے۔

رپورٹ عوامی مقامات اور دفاتر میں ایس او پیز کی رجحان ختم ہونے کی عکاسی بھی کرتی ہے جس پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، عوامی مقامات پر کی جانے والی مانیٹرنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کورونا وائرس کے ایس او پیز پر عمل نہیں کر رہی ہے۔

علاوہ ازیں کورونا وائرس سے آگاہی کے حوالے سے عوام کو بڑے پیمانے پر معلومات فراہم کی گئیں لیکن عملدرآمد اب بھی کم ہے، تحقیق میں شامل اضلاع کے صرف 18 فیصد علاقوں کے افراد کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے خطرات کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔

رپورٹ میں اومیکرون کی پیش رفت کے بعد حکومتی اقدامات کو تسلیم کیا گیا۔

29 نومبر کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے شہریوں سے کورونا وائرس ویکسین کی مکمل خوراک لگوانے کی اپیل کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر کا اعلان کیا تھا، جس میں نئے ویرینٹ سے متاثر ممالک میں سفر سے رکنے کی اپیل بھی کی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں