اسلام آباد: وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے صرف افغان سرمایہ کاروں کو پاکستانی شہریت دینے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا ہےکہ اس قسم کی پالیسی کو کسی خاص ملک تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہش مند غیر ملکی افراد کو شہریت دینے کی تجویز افغانستان بین الوزارتی رابطہ سیل (اے آئی سی سی) کے حالیہ اجلاس میں پیش کی گئی، اس اجلاس کی صدارت خود وزیر اعظم کررہے تھے۔

اجلاس میں خاص طور پر پاکستان میں رہنے والے افغان شہریوں یا طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک چھوڑنے کے خواہشمند لوگوں پر توجہ دی گئی۔

اے آئی سی سی کی صدارت وزیر اعظم کرتے ہیں اور اس میں وزیر داخلہ، وزیر خارجہ، وزیر خزانہ، قومی سلامتی کے مشیر، مسلح افواج اور دیگر متعلقہ محکموں کے اعلیٰ عہدے داروں کے ساتھ ساتھ بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین شامل ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے: افغانستان سے کئی اشیا کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کردی گئی

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیر مملکت اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین محمد اظفر احسن نے افغانستان سے سرمایہ کاری لانے کے لیے افغان سرمایہ کاروں کو شہریت دینے کی تجویز دی تھی۔ انہوں نے تجویز دی کہ اس طرح پاکستان افغانستان کے ساتھ ساتھ ہانگ کانگ اور مکاؤ وغیرہ جیسے چینی خطوں سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کاروں کو مدعو کر سکتا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ ملاقات کے دوران وزیراعظم نے اس خیال کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ سعودی عرب اور ترکی سمیت خطے کے کئی ممالک نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ایسی پالیسیاں متعارف کروائی ہیں۔

تاہم اجلاس کے شرکا نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ایسی پالیسی کسی خاص ملک کے لیے نہیں ہونی چاہئیں کیونکہ اس سے سفارتی مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔

وزارت داخلہ کے ایک ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ’اگر افغان سرمایہ کاروں سے متعلق پالیسی ہوتی تو افغان طالبان کو اس پر اعتراض ہوتا‘، ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ’اس پالیسی کو سب کے لیے ہونا چاہیے‘۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے بورڈ آف انویسٹمنٹ کو ایک ایسی پالیسی تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے جس میں تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہو اور ساتھ ہی پالیسی کے عملی نفاذ کا طریقہ کار بھی موجود ہو۔

بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین اظفر احسن نے ڈان کو بتایا کہ ’ہم اس طرح کی پالیسی پر تمام پہلوؤں سے غور کررہے ہیں اور یہ ضروری ہے کہ سرمایہ کاری کے تمام مواقعوں کا استعمال کیا جائے۔۔۔ لیکن ہر چیز کو قومی اور بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں ہونا چاہیے‘۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ’ہم‘ سے مراد تمام متعلقہ حکومتی ادارے بشمول وزارت داخلہ، لاء ڈویژن اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھی ہے۔

مزید پڑھیے: کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا تو افغانستان میں سب سے بڑا انسانی بحران دیکھنا پڑے گا، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ ’یہ پالیسی صرف افغان شہریوں تک محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ایک وسیع البنیاد نظام ہونا چاہیے تاکہ قانونی حیثیت رکھنے والے اور دنیا کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کی جاسکیں‘۔

دوسری جانب وزارت داخلہ کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ کچھ حلقوں کی جانب سے خدشات تھے کہ پاکستان کو محتاط رہنا ہوگا کیونکہ پاکستان ’سعودی عرب یا ترکی جیسا برتاؤ نہیں کر سکتا‘ اور اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

روایتی طور پر، آسٹریا، انٹیگوا اور باربوڈا، ڈومینیکا، گریناڈا، مالٹا، مونٹی نیگرو، سینٹ کٹس اینڈ نیوس اور سینٹ لوشیا جیسے ممالک سرمایہ کاری پر مبنی شہریت کے پروگرام پیش کرتے رہے ہیں۔

بورڈ آف انویسٹمنٹ کو اب پالیسی پر کام کرنے کی ہدایت دے دی گئی ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدا میں تجویز دی گئی تھی کہ پاکستان میں کم از کم 10 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکی شہری پاکستانی شہریت کے اہل ہوں اور اس منظوری سے قبل ہر سرمایہ کار کی تفصیلات تمام صوبوں کو فراہم کی جائیں۔


یہ خبر 02 جنوری 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں