بھارت میں کووڈ کے نئے بحران کا خدشہ، دہلی میں رات کا کرفیو نافذ

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2022
بھارت میں گزشتہ ڈیلٹا لہر کےدوران چند ہفتوں میں 200,000 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے تھے—فوٹو:اے ایف پی
بھارت میں گزشتہ ڈیلٹا لہر کےدوران چند ہفتوں میں 200,000 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے تھے—فوٹو:اے ایف پی

بھارت میں کورونا کیسز کی یومیہ شرح رواں ہفتے تین گنا بڑھ کر 90,000 سے زیادہ ہو گئی ہے، جس کے بعد دارالحکومت نئی دہلی میں رات کا کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پچھلے سال کورونا سے بدترین متاثرہ ہونے والے بھارت کورونا کے کیسز کے سیلاب کے خلاف تیاری کر رہا ہے، مختلف بڑے شہروں کی انتظامیہ وائرس کو روکنے کے لیے پابندیاں لگا رہی ہے۔

کیسز کی تعداد ابھی تک پچھلے موسم بہار کی طرح بہت بڑی تعداد نہیں ہے، جب ہر روز ہزاروں افراد کورونا کے باعث جاں بحق ہو رہے تھے اور ہندوؤں کے مقدس شہر وارانسی میں وائرس سے متاثرین کی اجتماعی تدفین اور آخری رسومات کی ادائیگی 24 گھنٹے جاری رہتی تھی۔

بھارت میں روزانہ کیسز پچھلے دو دنوں میں تقریباً تین گنا بڑھ کر 90,000 سے زیادہ ہو گئے ہیں، یہ اضافہ انتہائی تیزی سے پھیلنے والے اومیکرون ویرینٹ کے باعث ہے، جس کے بارے میں متعدد ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ملک کے ہسپتالوں کو دوبارہ بھرتے ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :بھارت میں کورونا وائرس سے ایک روز میں ریکارڈ 3 ہزار 780 اموات

دہلی کے علاقے میں راتوں رات کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے، جہاں ہفتے کے آخر میں جمعے کو شام تک نقل و حرکت پر پابندیوں کا اعلان کیا گیا تھا اور تمام غیر ضروری ورکرز کو گھر میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ٹیک ہب بنگلور نے بھی ویک اینڈ کرفیو کا اعلان کیا ہے جبکہ کاروباری مرکز ممبئی میں رات کا کرفیو متعارف کروایا گیا ہے۔

ہندوستان کی اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر گوتم مینن نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ ممکنہ طور پر صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو دوسری لہر کے مقابلے یا اس سے بدتر سطح پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔

اے ایف پی سے بات کرنے والے ڈاکٹر اور نرسز نے کہا کہ وہ اب تک پر امید ہیں کہ حالت مزید خراب نہیں ہوں گے۔

ان کے مطابق مریضوں میں کم سنگین کیسز ہیں جو ہسپتال میں داخل ہورہے ہیں اور اب ہم تجربہ بھی رکھتے ہیں، دہلی کے ایک ہسپتال کے ایک فرنٹ لائن کارکن نے کہا کہ پچھلے سال ہم وبا کے بارے میں اتنا نہیں جانتے تھے کہ ہم کس چیز سے نمٹ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : بھارت: کورونا کیسز 2 کروڑ سے متجاوز، راہول گاندھی کا ملک گیر لاک ڈاؤن کا مطالبہ

وزیر اعظم نریندر مودی کی انتظامیہ اب تک پچھلے سال کے تباہ کن وبا کے دوران متعارف کرائے گئے سخت ملک گیر لاک ڈاؤن سے گریزاں ہے۔

لیکن مقامی عہدیداروں نے تیزی سے بڑھتے ہوئےکورونا کیسز کو خطرے کی گھنٹی کے طورپر دیکھا ہے اور بھارت کے چند بڑے شہری مراکز دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کی طرف گئے ہیں۔

گزشتہ کورونا وائرس کی لہر کے دوران لگایا گیا لاک ڈاؤن بھارتی معیشت کے لیے بڑا دھچکا تھا اور اسی طرح بہت سے لوگ اب لگنے والی نئی پابندیوں کے مالی اثرات سے بھی پریشان ہیں۔

دہلی کے رہائشی تمل سری واستو نے کہا کہ میں اس مہینے میں صرف 15 دن کام کروں گا، جو دفتر میں شہری انتظامیہ کی جانب سے 50 فیصد حاضری کی عائد حد سے مشروط ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری تنخواہ کاٹی جا سکتی ہے، یہ سب میری پریشانی میں اضافہ کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں :بھارت میں مسلسل 12ویں روز کورونا کے 3 لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ

بھارت اومیکرون کے موسم کے لحاظ سے اس وقت بہتر دکھائی دیتا ہے، جو وہ گزشتہ موسم بہار میں آنے والی تباہ کن ڈیلٹا لہر کےدوران تھا، جب چند ہفتوں میں 2 لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔

اس وقت ہسپتالوں میں آکسیجن ختم ہو گئی تھی، مریض میڈیکل اسٹورز پر بھاگنے کے بعد دوائیوں کے حصول کے لیے بےچینی کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔

اس کے بعد سے بھارت کے صحت کے حکام نے 1.5 ارب کےقریب ویکسین کی خوراکیں لگائیں، حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک کے تقریباً دو تہائی حصے کو مکمل طور پر ویکسین لگائی گئی ہے۔

اس ویکیسن مہم کی بدولت ملک بھر کے شہروں اور دیہاتوں کے پچھلے سال کے ڈیلٹا سویپ کے ساتھ تازہ ترین پھیلاؤ کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔

مشی گن یونیورسٹی کےماہر وبائی امراض بھرمر مکھرجی نے اے ایف پی کو بتایا، اگرچہ ہمارے پاس ڈیٹا نہیں ہے، شاید سنگین نتائج کے خلاف مضبوط ہائبرڈ استثنیٰ دے سکتا ہے۔

ابتدائی تحقیق سے اب تک یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ کورونا کا اومیکرون ویرینٹ تیزی سے پھیلنے کے باوجود اس سے متاثرہ افراد میں صحت کے کم سنگین نتائج سامنے آئے ہیں۔

مکھرجی نے خبردار کیا کہ نئے انفیکشن کا پھیلاؤ بھارت کے لیے اب بھی سنگین مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ آپ امریکا اور برطانیہ میں دیکھ رہے ہیں، کام کرنے والی آبادی کا ایک بڑا حصہ بیمار ہونے سے سماجی انفراسٹرکچر متاثر ہو رہا ہے اور افراتفری کی طرف لےجا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ بھارت میں ایسا وقت آ سکتا ہے جب ہم ایک ہی چیز کو دیکھتے ہیں، صرف بےانتہا بوجھ جو سسٹم کو تباہ کرسکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں