لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

ہم اب ایک قدم پیچھے ہٹ کر وسیع منظرنامے کو دیکھنے کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ ملک میں ہونے والے اب سیاسی تجزیوں سے مراد بہت باریک باریک چیزوں پر توجہ دینا اور ان سے نتائج اخذ کرنا ہی رہ گیا ہے۔ پھر چاہے وہ نتائج درست ہوں یا نہ ہوں۔ تو آئیے اس روش پر چلتے ہوئے کچھ باتیں ہم بھی عرض کیے دیتے ہیں۔

آغاز کرتے ہیں ایک بریفنگ اور ایک انٹرویو سے۔ بریفنگ وہ جس میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے میڈیا کو بتایا کہ پاک فوج افغان طالبان کے تحفظات کے باوجود ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کا کام مکمل کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔

انہوں نے طالبان کی جانب سے باڑ گرانے کی ویڈیوز کو ’مقامی مسائل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ باڑ لگانے کا کام جاری رہے گا۔

طالبان کا اپنی بات سے پیچھے نہ ہٹنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے خاص طور پر اس وقت کہ جب ان کے پاکستانی بازو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے اعلان کردہ جنگ بندی ختم ہوچکی ہے اور اس کے حملوں میں بھی تیزی آتی جارہی ہے۔ ساتھ ہی ہمارے بہادر جوانوں کو ایک بار پھر اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے عظیم قربانی دینا پڑرہی ہے۔ تاہم میڈیا نے اس معاملے کو نظر انداز کرکے اس بریفنگ میں ذکر کیے گئے دیگر معاملات پر توجہ دی۔

مزید پڑھیے: پاکستان کی سیاسی بساط

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے دارالحکومت میں کسی تبدیلی کے پیش خیمے کے طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے ساتھ کسی بھی ڈیل کی قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا۔ گزشتہ ہفتے خود وزیرِاعظم عمران خان نے بھی سابق وزیرِاعظم کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ملک واپس آنے کے لیے کسی ڈیل کے منتظر ہیں۔

یہ بات واضح نہیں ہے کہ جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ کہا تھا کہ ’یہ سوال ان لوگوں سے کیا جائے جو اس قسم کی باتیں کررہے ہیں‘ تو ان کا اشارہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی جانب تھا یا پھر صرف ٹیلی وژن پر آنے والے ان تجزیہ کاروں کی جانب جو ’ایک صفحے کے‘ ہائبرڈ اتفاق رائے کے ٹوٹنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ڈیل کی بات کر رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ وزیرِاعظم کی طرف سے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے نوٹیفیکیشن میں تاخیر نے اس تازہ ترین کشیدگی کو جنم دیا ہے۔ لیکن جنرل بابر اپنے ادارے کو 'حکومت کے ماتحت' اور اس کی ہدایات کے مطابق کام کرنے والے ادارے کے طور پر بیان کرتے ہوئے سول ملٹری تنازعہ پر کسی بھی سوال کو نظر انداز کرنے کے خواہاں تھے۔

وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں مزید توسیع کے کسی سوال کا بھی جواب نہیں دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں نے پہلے بھی آپ سے درخواست کی تھی کہ اس قسم کی بحث میں مت الجھا کریں اور بے بنیاد افواہوں پر زیادہ توجہ مت دیا کریں‘۔ واضح رہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں پہلے ہی 3 سال کی توسیع ہوچکی ہے۔

اب ہم وزیرِاعظم کی جانب سے دنیا نیوز کے اینکر خاور گھمن کو دیے گئے انٹرویو کا ذکر کرتے ہیں جس کے بہت چرچے ہوئے۔ اس انٹرویو میں وزیرِاعظم نے بھی سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر جیسے خیالات کا ہی اظہار کیا اور ان تعلقات کو مثالی قرار دیا۔

آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں ایک بار پھر ممکنہ توسیع کے سوال پر وزیرِاعظم نے کہا کہ نومبر (جب جنرل باجوہ نے ریٹائر ہونا ہے) بہت دُور ہے تو ’پھر توسیع کے حوالے سے ابھی کیوں فکر کی جارہی ہے۔۔۔‘۔ یہ واضح نہیں تھا کہ آیا یہ کوئی اشارہ تھا یا نہیں کیونکہ انہوں نے اس معاملے پر کوئی واضح بیان نہیں دیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب خود وزیرِاعظم اور فوج اور اس کے سربراہ کے ترجمان کا یہی کہنا ہے کہ سول ملٹری تعلقات نہ صرف ٹھیک ہیں بلکہ مثالی ہیں تو پھر افواہوں کی نوبت ہی کیوں آتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے درمیان تنازعات کی خبریں محض قیاس آرائی پر مبنی نہیں ہیں بلکہ یہ طاقت کے مراکز کے قریب رہنے والے ذرائع سے صحافیوں کو ملنے والی غیر رسمی اور غیر منسوب 'بریفنگ' پر مبنی ہیں۔

مزید پڑھیے: مشن ایکسٹینشن: 3 روزہ کارروائی کے دوران میں نے سپریم کورٹ میں کیا کچھ دیکھا؟

جو کچھ ہم سمجھتے ہیں اور اصل کردار آن ریکارڈ جو کچھ کہتے ہیں اس میں سے درست کیا ہے یہ جاننے کے لیے ہمیں دیگر چھوٹے چھوٹے واقعات اور بیانات پر توجہ دینی ہوگی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا وہ ہمارے خیالات کا ساتھ دیتے ہیں یا پھر حکام کے آن ریکارڈ بیانات کا۔

مثال کے طور پر جو بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابقہ ​​ستونوں میں سے ایک جہانگیر خان ترین کے سیاسی کیرئیر سے واقف ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ جہانگیر ترین اہم سیاسی معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کے مؤقف سے دُور نہیں بھٹکتے۔

ان کا سیاسی کیریئر جنرل پرویز مشرف کی نگرانی میں پروان چڑھا۔ انہوں نے وفاقی کابینہ میں شامل ہونے سے قبل 2002ء سے 2004ء تک پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کے مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور (مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد)، وہ وفاقی کابینہ میں 2007ء تک رہے۔

2008ء میں وہ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی میں پہنچے۔ تاہم جب 2011ء میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل شجاع پاشا نے مبیّنہ طور پر مختلف جماعتوں کے اراکین کو عمران خان کی جماعت میں آنے کے لیے کہا تو جہانگیر ترین بھی پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔

سب کو معلوم ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں جب پی ٹی آئی سادہ اکثریت کے حصول میں ناکام رہی تو جہانگیر ترین نے طاقتور حلقوں کے ساتھ مل کر پارلیمانی اکثریت کو یقینی بنانے کے لیے کیا کھیل کھیلا۔

پی ٹی آئی کے ساتھ ان کی دُوری حال ہی میں ہوئی ہے اور اس کی وجوہات بھی ذہنوں میں تازہ ہیں، لہٰذا اس پر الفاظ ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جس چیز کا تذکرہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے حکومت کی حمایت کرنے والے موجودہ اراکین اسمبلی کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔

اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ حکمران جماعت کے پیروں تلے زمین کھینچنے کے لیے کسی بھی وقت حزبِ اختلاف کو عددی مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں یا پھر انہیں ان حلقوں کی جانب سے ایسا کرنے کا حکم مل چکا ہے جنہیں وہ کبھی انکار نہیں کرتے۔

مزید پڑھیے: وزیر اعظم اور کابینہ کی کارکردگی کیسے بہتر ہوگی؟

ہاں ان کا وہ بیان بہت واضح ہے جو انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کی بیٹی کی شادی کے موقع پر دیا تھا۔ صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ کیا ’آپ کا جہاز [یعنی خود جہانگیر ترین] پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب بھی جاسکتا ہے؟‘ اس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’جہاز تو کسی بھی جانب اڑ سکتا ہے، لیکن میں یہاں شادی میں شرکت کے لیے آیا ہوں۔۔۔ ہم دیکھیں گے کہ آگے کیا ہوتا ہے، انشااللہ۔ جو ہونا ہوگا وہی ہوگا‘۔

ہمیں ان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہی توجہ دینا ہوگی کیونکہ وسیع منظرنامے کو دیکھ کر سب کچھ واضح ہونے کے باوجود بھی کچھ نظر نہیں آئے گا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومتِ وقت کے لیے سب کچھ ٹھیک نہیں ہے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آیا ہاتھ دھو کر احتساب کے پیچھے پڑنے سے معیشت کی بدحالی، بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام کا بڑھتا ہوا بوجھ حکومت کو لے ڈوبے گا یا پھر ایک اور توسیع بقائے باہمی کو یقینی بنائے گی۔


یہ مضمون 09 جنوری 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں