حکومت کو صحیح انداز میں نہیں چلایا جارہا، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 14 جنوری 2022
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں پر چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بوجھ پڑنے لگا ہے— فائل فوٹو: آئی این پی
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں پر چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بوجھ پڑنے لگا ہے— فائل فوٹو: آئی این پی

چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ ملک میں گورننس بہت پیچیدہ ہو گئی ہے اور اسے اس جذبے سے نہیں سنبھالا جارہا جس طرح ہونا چاہیے تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ 'شہریوں کے حقوق کو نافذ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اس ملک کے بے بس لوگوں کو عام مسائل کا سامنا ہے اور ان کے بنیادی حقوق کو بلاخوف پامال کیا جا رہا ہے'۔

چیف جسٹس نے یہ بات کتاب 'ریڈینگ دی کانسٹی ٹیوشن آف پاکستان، آرٹیکل وائس ڈسکشن، کیس، فیئر کمنٹس آن کیس، لا اینڈ دی ہسٹری' کی تقریب رونمائی پر کہی۔

چھ جلدوں اور 5 ہزار صفحات پر محیط اس کتاب کو لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج سید شبر رضا رضوی نے تحریر کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے آڈیٹوریم میں منعقدہ تقریب میں سپریم کورٹ کے ججز، سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد، سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا اور مختلف ممالک کے سفرا نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: لوگوں کے حقوق بحال کرنا سپریم کورٹ کا بنیادی کام ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کیا کہ گورننس ایسے حالات سے دوچار ہے کہ چھوٹے موٹے مسائل اکثر درخواستوں کی شکل میں عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی، جنہیں حکومت نے بڑی تعداد میں افرادی قوت کے ساتھ لوگوں کو ان کی دہلیز پر فراہمی کو یقینی بنا کر سنبھالنا تھا، وہ نہیں کی جارہیں۔

انہوں نے کہا کہ سڑکوں کی صفائی، کچرا اٹھانا، پارکس اور کھلی جگہوں کی دیکھ بھال، کھیل کے میدانوں کی فراہمی اور قانون کے مطابق تعمیرات کو یقینی بنانا حکومت کے اولین اور بنیادی کام ہیں لیکن ان بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی جا رہی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے نتیجے میں عدالتوں پر چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بوجھ پڑنے لگا اور وہ حقوق نافذ کرنے پڑے جو شہریوں کو فیصلوں اور اعلانات کے ذریعے حاصل ہوئے۔

انہوں نے حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے ارد گرد جو کچھ ہو رہا ہے اس کا نوٹس لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ عوامی زندگی کے تمام پہلوؤں پر آئین کا نفاذ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: کسی کے کہنے یا کسی ادارے کے دباؤ پر کبھی کوئی فیصلہ نہیں دیا، چیف جسٹس پاکستان

انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت عدلیہ کو یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ آئین کو حقیقی روح کے ساتھ نافذ کیا جائے۔

اس سے قبل جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یاد دلایا کہ پاکستان بہت خوشحال، طاقتور معاشرے کے ساتھ پرامن ہوا کرتا تھا لیکن اب بھوک اور عدم تحفظ کا شکار ہے 'صرف اس لیے کہ ہم اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں'۔

سابق چیف جسٹس نے معاشرے کے سمجھدار لوگوں پر زور دیا کہ وہ سر جھکا لیں اور سوچیں کہ کیا وہ بحیثیت قوم ناشکرے ہوئے ہیں۔

انہوں نے قوم کو درپیش پانچ مسائل کا ذکر کیا اور کہا کہ جب تک ان کی نشاندہی اور حل تلاش نہیں کیا جاتا، ملک عدم تحفظ کا شکار رہے گا، اس کے لیے 'ہمیں بیل کو سینگ سے پکڑنا ہوگا'۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں ہمیشہ کے لیے فیصلہ کرنا ہے کہ اسلامی نظام میں ریاست کا کیا کردار ہے اور انہیں آئینی نظام اور حکمرانی کے پیراڈائم میں اسلام کو کہاں رکھنا ہے۔

مختلف مسلم ممالک جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ازبکستان، ترکی اور انڈونیشیا کی مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے زور دیا کہ 'ہمیں ایک بار یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمیں کون سا ماڈل اپنانا ہے ورنہ ہم بے سدھ رہ جائیں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: یہ شہر ہے ہی نہیں کچرا ہے، چیف جسٹس کراچی تجاوزات کیس میں حکومت سندھ پر برہم

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں یہ بھی طے کرنا ہے کہ اسلام کی کون سی تشریح منتخب کی جائے کیونکہ پاکستان میں متعدد فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب تک وہ فیصلہ نہیں کرتے کہ ان کا اسلام کیا ہوگا، عدالتی فورم کبھی بھی شرعی معاملات پر فیصلہ نہیں کر سکتے۔

جسٹس آصف کھوسہ نے دہرایا کہ انہیں یہ بھی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا آئین کی بالادستی مطلق ہے یا نہیں، یا صدارتی طرز حکومت، پارلیمانی طرز حکومت، ون یونٹ وغیرہ جیسے کئی تجربات کے ذریعے آئین سے کھلواڑ کیا گیا تھا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ہمارا آئین سپریم ہے؟ کیا ہمیں اپنی ذات، اپنی ثقافت اور نظام پر اعتماد ہے یا ہمیں امریکا، برطانوی، سعودی عرب، مدینہ کی ریاست اور اب چینی ماڈل جیسے ماڈلز کے زیر اثر رہنا ہے۔

سابق چیف جسٹس نے زور دے کر کہا کہ آئین کا آرٹیکل 5 جو ریاست سے وفاداری کا مطالبہ کرتا ہے اس کا ہمیشہ غیر نمائندہ قوتوں نے آئین کی تنسیخ کو جواز بنا کر استحصال کیا جبکہ پہلے ریاست کا تحفظ ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تصور ہمیشہ ضرورت کے نظریے کو جنم دیتا ہے کہ 'آئین اور ریاست ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور اگر آئین کو منسوخ کر دیا گیا تو ریاست محفوظ نہیں رہ سکتی'۔

انہوں نے جمہوریت اور احتساب کے بارے میں تیسرے نکتے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی نئی حکومت آئی تو اس نے اپنے پیشرو پر الزامات کے ڈھیر لگائے لیکن جب چیف الیکشن کمشنر، نیب چیف یا نگراں سیٹ اپ کے تقرر کی بات آئی تو حکومت اور اپوزیشن دونوں نے تقرریوں کا انتخاب کیا۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس گلزار احمد کے قافلے کی گاڑی حادثے کا شکار، چیف جسٹس محفوظ رہے

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کچھ مناسب نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ذہنیت تھی کیونکہ 'ہماری وفاداری ریاست سے زیادہ اپنے قبیلے یا قوم سے تھی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے رجحانات اب مختلف اداروں بشمول قانونی برادری میں بھی سر اٹھا رہے ہیں جو اکثر اوقات ہڑتال پر چلے جاتے ہیں، اسی طرح ہمیں اپنی معاشی خود مختاری کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں