کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں جتنی بڑی تعداد تعلیمی سلسلے سے دور ہوئے اس پر قابو پانا لگ بھگ ناممکن ہے۔

یہ بات اقوام متحدہ کے ادارپ برائے اطفال (یونیسیف) کی جانب سے جاری ایک تحقیقی رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ غریب اور متوسط ممالک کے 10 سال کے 70 فیصد بچے ایک سادہ جملہ لکھنے یا سمجھنے سے قاصر ہیں، کورونا کی وبا سے قبل یہ شرح 53 فیصد تھی۔

یونیسیف کی جانب سے جاری رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کووڈ کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش سے 63 کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ بچے عالمی سطح پر متاثر ہوئے، بالخصوص چھوٹے اور غریب طبقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو وبا کے 2 سال کے دوران سب سے زایدہ نقصان ہوا۔

رپورٹ میں طالبعلموں کی مدد کے لیے معاونت فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

ایتھوپیا سے لے کر امریکا تک بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہوئے، جبکہ ان کی حساب دانی کی صلاحیتیں، ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہوئی۔

جنوبی افریقہ میں 75 فہصد تک اسکول جانے والے بچے ایک تعلیمی سال پیچھے رہ گئے جبکہ مارچ 2020 سے اکتوبر 2021 کے دوران 5 لاکھ سے زیادہ اسکولوں کو چھوڑ کر چلے گئے۔

ایتھوپیا میں پرائمری کلاسوں کی عمر کے بچوں نے معمول کے اسکول ایئر کے مقابلے مین محض 30 سے 40 فیصد ریاضی کو سیکھا۔

دنیا بھر میں اس عرصے کے دوران تعلیمی اداروں کی بندش سے 37 کروڑ بچے اسکولوں میں ملنے والی غذا سے محروم رہے، اکثر بچوں کے لیے یہ دن بھر کی غذائیت کا واحد قابل اعتبار ذریعہ تھا۔

یونیسیف کے ایجوکیشن شعبے کے سربراہ رابرٹ جینکنز نے بتایا کہ مارچ میں کووڈ سے عالمی تعلیم کو متاثر ہونے کے عمل کو 2 سال مکمل ہوجائیں گے، حقیقت تو یہ ہے کہ اس عرصے میں ہم نے بچوں کی تعلیم میں لگ بھگ ناقابل تلافی نقصان کو دیکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیمی سلسلے میں رکاوٹوں کو ختم ہونا چاہیے مگر اسکولوں کو کھلنا ہی کافی نہیں، بلکہ طالبعلموں کو کافی سپورٹ کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ اب تک کے نقصان سے ریکور ہوسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسکولوں کو تعلیمی سلسلے کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت، سماجی ترقی اور غذائیت کی بحالی پر بھی کام کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں