میاں چنوں واقعہ: مرکزی ملزم سمیت 62 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، طاہر اشرفی

اپ ڈیٹ 13 فروری 2022
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی اور چیئرمین پاکستان علما کونسل علامہ طاہر اشرفی خانیوال میں نیوز کانفرنس کر رہے تھے—فوٹو:ڈان نیوز
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی اور چیئرمین پاکستان علما کونسل علامہ طاہر اشرفی خانیوال میں نیوز کانفرنس کر رہے تھے—فوٹو:ڈان نیوز

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ میاں چنوں واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں 300 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور ثبوتوں کے ساتھ مرکزی ملزم سمیت 62 افراد کو حراست کر لیا گیا ہے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی اور پاکستان علما کونسل کے سربراہ علامہ طاہر اشرفی نے خانیوال میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جن مجرموں نے میاں چنوں میں ایک شخص کو درندگی سے قتل کیا، ان کو نشانِ عبرت بنایا جائے گا، بہیمانہ قتل کے الزام میں اب تک 62 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

انہوں نے افسوسناک واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے اور مشتعل ہجوم نے جو کیا وہ ناقابل معافی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں 300 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے جن میں ثبوتوں کے ساتھ مرکزی ملزم سمیت 62 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ پولیس اور سیکیورٹی ادارے سب اس وقت مزید مجرموں کی گرفتاری کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے قتل کے واقعات کو نہایت سختی سے کچلیں گے، وزیراعظم

علامہ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے واقعے کا نوٹس لیا ہے، وزیراعظم اس کیس کی خود نگرانی کر رہے ہیں اور انتظامیہ لمحہ بہ لمحہ صورتحال سےآگاہ کررہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ایک قانون اور آئین موجود ہے، ملک کا ایک دستور ہے جس پر عمل کرنا سب پر لازم ہے، اگر کوئی جرم کرتا ہے تو پولیس اور عدالتیں موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں بدقسمتی سے ایک ایسا رویہ پروان چڑھ گیا ہے جس کے باعث ہم ہر کچھ روز کے بعد اس طرح کے واقعات کا سامنا کرتے ہیں، اب سے کچھ روز قبل ہم نے سیالکوٹ میں ایک سانحہ دیکھا جس کی پوری قوم، تمام مکاتیب فکر کے علمائے کرام نے یک زبان ہوکر مذمت کی اور قاتلوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا اور ملزمان بہت جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ ملک میں توہین مذہب اور توہین رسالت کا قانون موجود ہے، ملک میں عدالتیں موجود ہیں تو اس طرح سے قانون کو ہاتھ میں لے کر لوگوں کو مارنے، جلانے اور قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ ملک کو اپنی مرضی سے چلائے گا۔

مزید پڑھیں:’قیام پاکستان سے اب تک توہین مذہب کے الزام میں 89 شہریوں کو قتل کیا گیا‘

ان کا کہنا تھا کہ علمائے اسلام اور تمام مذاہب و مکاتب فکر کے علمائے کرام اور اکابرین کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا بھی ہے، اگر وہ گناہ گار بھی ہے تو بھی اس کو اس طرح سے قتل نہیں کیا جا سکتا، جب قانون موجود ہے تو ایسے واقعے کی تائید نہیں کی جاسکتی، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

انہوں نے اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات کے مقدمات کا فیصلہ تیزی سے کیا جائے، میری چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ توہین مذہب، توہینِ رسالت اور اس طرح کے واقعات کے مجرموں کے کیسز کے اسپیڈی ٹرائل کرکے ان کو سزائیں دلوائیں، جب تک اس طرح کے واقعات میں ملوث مجرموں کو سزائیں نہیں ملیں گی اس وقت تک مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

علامہ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوتی ہے، اس طرح کے شرمناک واقعات دین اسلام کی بدنامی کا بھی باعث بنتے ہیں، دنیا کہتی ہے کہ 50 سے زائد اور بھی اسلامی ملک ہیں مگر وہاں ایسے واقعات پیش نہیں آتے، صرف پاکستان میں ہی کیوں ایسے افسوسناک واقعات ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:لاہور: توہین مذہب کا ملزم 10 سال بعد بری

انہوں نے کہا کہ دنیا آج میرے وطن پر انگلیاں اٹھا رہی ہے، ہم نے اپنے وطن اور دین کے اوپر کسی کو انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں دینی، دین اسلام، پاکستان اور قوم اس طرح کے انتہاپسندانہ اقدامات کرنے والے جاہلوں کے عمل سے بری بنتی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ میاں جنوں میں پیش آنے والے واقعے میں 15 مرکزی ملزمان کو شناخت کرکے انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

15 مرکزی ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے، پنجاب پولیس

پنجا پولیس کے ترجمان نے کہا کہ گرفتار مرکزی ملزمان میں محمد یعقوب، کاشف، محمد ریاض، ثقلین، محمد شان، آصف، ندیم، قیصر نذیر، عبد الغنی، محمد اسلم، محمد عامر، اعجاز، محبوب الرحمٰن، محمد بلال اور علی شیر شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گرفتار ملزمان کو اینٹوں اور ڈنڈوں سے شہری اسلم پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے اور ان کے خلاف دہشت گردی اور سنگین جرائم کی دفعات لگائی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے مزید ملزمان کی گرفتاری اور شناخت کا عمل جاری ہے اور پولیس نے ابھی تک کل 85 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جن میں مرکزی ملزمان کی شناخت کا عمل جاری ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی ٹیموں کے چھاپے جاری ہیں اور وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب سارے آپریشن کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔

انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ قانون ہاتھ میں لینے والے تمام شرپسند عناصر کو جلد از جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز میاں چنوں کے گاؤں جنگل ڈیرہ میں مغرب کی نماز کے بعد اس طرح کے اعلانات ہوئے کہ ایک شخص نے قرآن کے اوراق پھاڑ کر انہیں نذرِ آتش کردیا ہے، اعلانات سن کر سیکڑوں مقامی افراد جمع ہو گئے۔

ملزم مبینہ طور پر بے قصور تھا تاہم کسی نے اس کی بات نہیں سنی اور اسے پہلے درخت سے لٹکایا اور پھر اینیٹیں مار مار کر قتل کردیا۔

ایک عینی شاہد کے مطابق پولیس ٹیم نے گاؤں پہنچ کر ملزم کو حراست میں لے لیا تھا لیکن ہجوم نے اسے ایس ایچ او کی تحویل سے چھین لیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں