روس کا یوکرین کی سرحد سے کچھ افواج کو واپس بلانے کا اعلان

15 فروری 2022
سفارتی کوششوں کے بعد روس نے پیچھے ہٹنے کا اعلان کیا— فوٹو: اے پی
سفارتی کوششوں کے بعد روس نے پیچھے ہٹنے کا اعلان کیا— فوٹو: اے پی

روس اور یوکرین کے درمیان جاری بحران میں کمی کے حوالے سے بڑی پیشرفت ہوئی ہے اور روس نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کی سرحد سے اپنی کچھ افواج کو اڈوں پر واپس بلا رہا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یوکرین کی سرحد کے قریب ایک لاکھ روسی فوجیوں کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے روس کے یوکرین پر حملے کا خطرہ تھا تاہم سفارتی کوششوں کے بعد روس نے پیچھے ہٹنے کا اعلان کیا۔

مزید پڑھیں: روس یوکرین پر حملے کیلئے جھوٹا بہانہ بنا سکتا ہے، امریکا

روس کے اعلان کے بعد یوکرین نے کہا ہے کہ مغربی اتحادیوں کے ہمراہ مشترکہ سفارتی کوششوں نے ایک خوفناک روسی حملے کو ٹال دیا ہے۔

یوکرین کے وزیر خارجہ دمیتریو کولیبا نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اور ہمارے اتحادی روس کو مزید پیش قدمی سے روکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، یہ فروری کا وسط ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ سفارت کاری مسلسل کام کر رہی ہے۔

یہ سرد جنگ کے بعد یوکرین اور روس کے درمیان اب تک کا سب سے بدترین بحران ہے جو رواں ہفتے اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا اور امریکی حکام نے خبردار کیا کہ یوکرین کے دارالحکومت کیف سمیت پورے ملک پر بڑے پیمانے پر حملہ ہو سکتا ہے۔

منگل کی صبح روسی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ یوکرین کے قریب تعینات کچھ فورسز نے اپنی مشقیں مکمل کر لی ہیں اور واپس جانے کے لیے تیار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روس بیجنگ اولمپکس کے دوران یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے، امریکا

وزارت دفاع کے سربراہ ایگور کوناشینکوف نے روسی خبر رساں ایجنسیوں کو بتایا کہ جنوبی اور مغربی فوجی اضلاع کے دستوں نے اپنا کام مکمل کر کے بذریعہ ریل اور سڑک نقل و حمل شروع کر دی ہے اور آج وہ اپنی فوجی چھاؤنیوں کی طرف جانا شروع کر دیں گے۔

یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ اس میں کتنے یونٹ شامل تھے اور انخلا کا یوکرین کے اردگرد موجود فوجیوں کی مجموعی تعداد پر کیا اثر پڑے گا لیکن یہ کئی ہفتوں میں روسی کی جانب سے انخلا کا پہلا اعلان ہے۔

اگر مغربی حکام بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ روس اپنی افواج کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے تو اس سے یورپ میں ایک بڑی جنگ کا خدشہ کم ہو جائے گا جس کا ہر گزرتے وقت کے ستاھ خطرہ بڑھتا جا رہا تھا۔

پہلا ردعمل جرمن چانسلر اولاف شولز کی طرف سے آ سکتا ہے جو منگل کو ماسکو میں روسی صدر ولادمیر پیوٹن کے ساتھ بات چیت کے لیے آنے والے تھے۔

مزید پڑھیں: روس کی بحری مشقیں ہائبرڈ جنگ کا حصہ ہیں، یوکرین

منگل کی بات چیت سے قبل جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیربوک نے خبردار کیا کہ صورتحال خاصی خطرناک ہے اور کسی بھی وقت مزید بڑھ سکتی ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ کشیدگی میں کمی کی ذمے داری واضح طور پر روس کی ہے اور یہ ماسکو کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو واپس بلائے، ہمیں پرامن حل تک پہنچنے کے لیے بات چیت کے تمام ذرائع استعمال کرنے چاہئیں۔

پیر کے روز پیوٹن کے وزرائے خارجہ اور دفاع نے کشیدگی میں ممکنہ کمی کا عندیا دیا تھا۔

پیوٹن سے ملاقات کے دوران وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا یوکرین اور مغرب درمیان معاہدے کا ہمیشہ ایک امکان موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تناؤ میں کمی کے لیے یوکرین اور روس کے درمیان پیرس میں مذاکرات

انہوں نے پیوٹن کو بتایا تھا کہ یورپی دارالحکومتوں اور امریکا میں رہنماؤں کے ساتھ تبادلہ خیال میں روس کے اہداف کے حصول کے تحت پیش رفت کا قابل عمل راستہ نظر آتا ہے۔

اس دوران وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے پیوٹن کو بتایا تھا کہ دسمبر میں شروع کی گئی کچھ روسی فوجی مشقیں ختم ہو رہی ہیں اور مزید مستقبل قریب میں ختم ہو جائیں گی۔

روسی رہنما اور ان کے اعلیٰ معاونین مسلسل یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ موجودہ بحران امریکا اور مغربی یورپ کی جانب سے ماسکو کے جائز سیکیورٹی خدشات کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔

روس پہلے ہی کریمیا کے اس جزیرہ نما کو کنٹرول کرتا ہے جسے اس نے 2014 میں یوکرین سے چھین لیا تھا اور مشرقی یوکرین کے کچھ حصوں کو کنٹرول کرنے والی علیحدگی پسند قوتوں کی حمایت کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: یوکرین صورتحال پر بائیڈن اور پیوٹن کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ

دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے پیر کو ایک کال میں اتفاق کیا تھا کہ سفارت کاری کا اہم موقع باقی ہے۔

ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ترجمان نے کہا کہ رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ یوکرین میں مزید مداخلت روس کے لیے ایک طویل بحران کا باعث بنے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں