یوکرین کے معاملے پر مغرب اور روس میں بڑے تصادم کا اشارہ

اپ ڈیٹ 26 فروری 2022
جو بائیڈن نے کہا کہ کریملن نے واضح طور پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے—تصویر: اے پی
جو بائیڈن نے کہا کہ کریملن نے واضح طور پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے—تصویر: اے پی

یوکرین پر مشرق و مغرب کی کشیدگی میں اس وقت ڈرامائی اضافہ ہوگیا جب روسی قانون سازوں نے صدر ولادیمیر پوٹن کو اپنے ملک سے باہر فوجی طاقت استعمال کرنے کا اختیار دیا جس کا جواب امریکی صدر جو بائیڈن اور یورپی رہنماؤں نے روسی عہدیداروں اور بینکوں پر پابندیاں لگا کر دیا۔

امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اشارہ دیا کہ اس سے بھی بڑا تصادم ہوسکتا ہے۔

ولادیمیر پیوٹن یوکرین کے تین اطراف ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کو اتار سکتے ہیں جب کہ جو بائیڈن نے روس پر زیادہ سخت پابندیاں نہیں لگائیں جو روس کے لیے اقتصادی بحران کا باعث بن سکتی تھیں لیکن کہا کہ اگر مزید جارحیت ہوئی تو وہ آگے بڑھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:برطانیہ کا روس کے 5 بینکوں اور 3 امیر ترین افراد پر پابندیاں لگانے کا اعلان

خیال رہے کہ روس کی سرحد سے متصل نیٹو کے مشرقی کنارے پر بالٹک ممالک میں اضافی امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ یہ اقدامات اس وقت سامنے آئے جب روسی افواج صدر دلادیمیر پیوٹن کی جانب سے علیحدگی پسند ریاستوں کو تسلیم کرلینے کے بعد مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں داخل ہوئیں۔

وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ کریملن نے واضح طور پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے جسے انہوں نے 'یوکرین پر روسی حملے کا آغاز' قرار دیا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر دلادیمیر پیوٹن مزید آگے بڑھے تو وہ بھی اور پابندیاں لگاتے ہیں۔

جو بائیڈن نے کہا کہ ہم یوکرین کی حمایت میں روسی جارحیت کے خلاف متحد ہیں، جب بات کسی حملے کے جواز یا بہانے کے روسی دعووں کی ہو تو ہم میں سے کسی کو بھی بے وقوف نہیں بنایا جانا چاہیے، ہم میں سے کوئی بھی بیوقوف نہیں بنے گا ایسا کوئی جواز نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:روس کا یوکرین پر حملے کا خدشہ، تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل کے قریب جا پہنچی

حملے کے خطرے کے لیے سفارتی حل کی امیدیں جسے امریکی حکام نے کئی ہفتوں سے ناگزیر قرار دے رہے تھے، تحلیل ہوتی نظر آئیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ جنیوا میں جمعرات کی ملاقات کا منصوبہ منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نتیجہ خیز نہیں ہو گی اور روس کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماسکو بحران کے حل کے لیے پرامن راستے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔

دوسری جانب یورپی یونین کے 2 درجن سے زائد ارکان پر مشتمل مغربی ممالک کے ایک متحدہ محاذ نے متفقہ طور پر روسی حکام کے خلاف پابندیوں لگانے پر اتفاق کیا۔

جرمنی نے بھی کہا کہ وہ روس سے نورڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن کی تصدیق کے عمل کو روک رہا ہے، جو ایک منافع بخش معاہدہ ہے جس کی ماسکو نے طویل عرصے سے کوشش کی تھی اور یورپ کا روس کی توانائی پر انحصار بڑھانے پر امریکا نے تنقید کی تھی۔

دریں اثنا امریکا نے روس کی حکومت کو مغربی مالیات سے منقطع کرنے کے لیے اقدام اٹھاتے ہوئے 2 بینکوں پر پابندی لگادی اور اسے امریکی اور یورپی منڈی میں قرضوں کی تجارت سے روک دیا۔

یہ بھی پڑھیں:پیوٹن کو روس سے باہر فورس کے استعمال کا اختیار، فوج مشرقی یوکرین روانہ

انتظامیہ کے اقدامات نے روس کی قیادت کے درجہ بندی میں سویلین رہنماؤں اور 80 ارب ڈالر کے اثاثوں والے 2 روسی بینکوں جنہیں خاص طور پر کریملن اور روس کی فوج کے قریب سمجھا جاتا ہے، انہیں نقصان پہنچایا۔

جو بائیڈن نے، اگرچہ امریکا کی جانب سے سوچے گئے کچھ وسیع اور سخت ترین مالی جرمانے اور پابندیوں کو روک دیا، جن میں ایک برآمدی پابندی جو روس کو اس کی صنعتوں اور فوج کے لیے انتہائی جدید امریکی ٹیکنالوجی کی فراہمی سے روکے گی اور روس کی باقی دنیا کے ساتھ کاروبار کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرنے والی پابندیاں شامل ہیں۔

امریکی صدر کہا کہ وہ اضافی امریکی فوجیوں کو بالٹک خطے میں بھیج رہے ہیں البتہ انہوں نے ان تعیناتیوں کو خالصتاً 'دفاعی' قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا روس سے لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

ایک سینئر دفاعی اہلکار کے مطابق، امریکا یورپ کے اندر دیگر مقامات سے نیٹو کے مشرقی حصے میں تقریباً 800 پیادہ دستے اور 40 حملہ آور طیارے بھیج رہا ہے، اس کے علاوہ ایف-35 اسٹرائیک فائٹرز اور اے ایچ-64 اپاچی اٹیک ہیلی کاپٹروں کا ایک دستہ بھی منتقل کیا جائے گا۔

یورپی یونین پابندیاں

دوسری جانب یورپی یونین نے ابتدائی پابندیوں کا اعلان 351 روسی قانون سازوں پر کیا جنہوں نے یوکرین کے دو علیحدگی پسند علاقوں کو تسلیم کرنے کے حق میں ووٹ دیا، ان کے علاوہ 27 دیگر روسی حکام اور دفاعی اور بینکنگ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے اداروں پر بھی پابندیاں لگائی گئیں۔

مزید پڑھیں:'کسی بلاک کا حصہ نہیں بنیں گے، روس-یوکرین تنازع کے پرامن حل کے خواہاں ہیں'

ساتھ ہی انہوں نے یورپی یونین کے دارالحکومت اور مالیاتی منڈیوں تک ماسکو کی رسائی کو محدود کرنے کی بھی کوشش کی۔

اس ضمن میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ وہ روس کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے پر غور کریں گے اور کیف نے ماسکو میں اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔

ادھر نیٹو کے سربراہ جینز اسٹولٹن برگ نے کہا کہ اگر پیوٹن یوکرین میں مزید آگے بڑھاتے ہیں تو مغرب لاک اسٹپ میں آگے بڑھے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر روس نے ایک بار پھر یوکرین کے خلاف طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو اس پر مزید سخت پابندیاں عائد ہوں گی، حتیٰ کہ اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں