پیکا قانون کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ

اپ ڈیٹ 24 فروری 2022
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو معلوم ہے کہ حکومت ہتک عزت کے قانون کو فوجداری قانون سے نکال رہی ہے— فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو معلوم ہے کہ حکومت ہتک عزت کے قانون کو فوجداری قانون سے نکال رہی ہے— فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا آرڈیننس کو ڈریکونین قرار دیتے ہوئے اس کے تحت گرفتاریوں سے روکنے کے احکامات میں توسیع کردی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے خلاف تمام درخواستیں یکجا کر دیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بھی عدالتی معاون کے طور پر پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے پیکا اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا

عدالت نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا اور کہا کہ عدالت کو معلوم ہے کہ حکومت ہتک عزت کے قانون کو فوجداری قانون سے نکال رہی ہے، یہ کیس عدالت کے لیے حیرت انگیز ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ حکومت اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف اس قانون کو استعمال کر رہی ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کے لیے یہ بات تشویش ناک ہے کہ قوانین کو آرڈی نینس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا، یہ عدالت پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 کالعدم قرار کیوں نا دے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دنیا میں عدالتیں ایسا کر چکی ہیں، اگر ایگزیکٹو کو اپنی ساکھ کا اتنا خیال ہے تو اس میں سے پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر پبلک آفس ہولڈر کی طاقت پبلک میں اس کی ساکھ ہوتی ہے، ایسی پارٹی جس کی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا ہے اس نے ایسا کیا، جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے سیاسی جماعتیں اور کارکنان ہی اس بات کے ذمہ دار ہیں تو پھر وہ اختلاف رائے سے کیوں ڈرتے ہیں؟

مزید پڑھیں: 'پیکا' ترمیمی آرڈیننس 2022 اسلام آباد، لاہور ہائی کورٹس میں چیلنج

چیف جسٹس نے کہا کہ ہتک عزت کا مقدمہ بہتر کر لیں، اس کا فیصلہ 90 روز میں ہو، عدالت کے سامنے واحد سوال یہ ہے کہ سیکشن 20 کو کیوں نہ کالعدم قرار دیا جائے؟

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ اسے غیر آئینی قرار دے، میرے خیال سے یہ غیر آئینی نہیں، قانون کا غلط استعمال کو دیکھنا ہے کہ اس کے کچھ سیف گارڈز ہونے چاہئیں، میں اس کے دفاع کے لیے تیار ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میرے ذہن میں ایک منصوبہ ہے اور وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوئی ہے، بہت سے ایسے ممالک بھی ہیں جہاں ہتک عزت کے قوانین کو ڈی کریمنلائز نہیں کیا گیا، اگر کوئی کسی پردہ نشین خاتون کو کہے کہ وہ جادو ٹونہ کرتی ہیں توکیا یہ آزادی اظہار رائے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے یہ قانون بنایا تھا انہوں نے بھی اس کو چیلنج کیا ہے، لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی اسے چیلنج کیا گیا ہے، بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھی درخواست دائر کی گئی ہے۔

عدالت نے کہا کہ اپوزیشن کی تو سینیٹ میں اکثریت ہے ، آپ کے پاس اختیار ہے کہ آپ اس کو مسترد کر سکتے ہیں، آپ پارلیمنٹ میں جا کر اپنا کردار ادا کریں۔

یہ بھی پڑھیں: 'پیکا آرڈیننس میں فیک نیوز کی تشریح نہیں'

عدالت کے سامنے جتنے کیسز آئے ہیں، اس میں ایف آئی اے نے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے اختیار کا غلط استعمال کیا، آپ ایف آئی اے کو یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ شکایت پر کسی کو پکڑ لے اور ٹرائل تک بندہ اندر رہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا فرض ہے کہ پارلیمنٹ کا حترام کرے، آپ نے آرڈینینس بنایا، سینیٹ کو اس سے منظور یا مسترد کرنے دیں، آرڈی نینسز کی منظوری اس لیے دی گئی ہے کہ 33 سال سے ملک آرڈی نینسز پر چلتا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کہتے ہیں ایف آئی اے جا کر گرفتار کرے گا اور ٹرائل کے اختتام تک وہ قید رہے گا، یہ ایک سخت قانون ہے، اس کے ذریعے تو آپ سیلف سینسر شپ کر رہے ہیں، آپ نے پبلک آفس ہولڈرز کی ذاتی ساکھ کی حفاظت پر لگا دیا ہے، اس سے زیادہ بدمعاشی کیا ہو سکتی ہے کہ اس عدالت اور سپریم کورٹ کے سامنے ایس او پیز پیش کیے مگر عمل نہیں کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں رولز پڑھ کر بتاؤں گا، دونوں ہاؤسز نہیں، ایک ہاؤس سے بھی منظوری لی جا سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، اگر ایک ہاؤس بھی آرڈینینس کو مسترد کر دے تو وہ مسترد تصور ہوگا۔

مزید پڑھیں: 'پیکا آرڈیننس پاکستان کے آئین اور انسانی حقوق کے متصادم ہے'

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 70 سالوں میں ہم ملک کو اس جگہ لے آئے اور اب ڈرتے ہیں کہ کوئی بات بھی نہ کرے، برطانیہ میں بادشاہت بچانے کے لیے ہتک عزت کے قانون کو کریمنلائز کیا گیا تھا جو بعد میں ختم کر دیا گیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ برطانیہ میں تو احتساب عدالتیں بھی نہیں ہیں، وہاں کے حکمران بعد میں کہیں بھاگ بھی نہیں جاتے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس قانون کا اطلاق سیاسی تقاریر پر نہیں ہو گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ بات واضح کریں کہ کسی تقریر پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا، بلال غوری نے ایک کتاب سے پڑھ کر تاریخی حقائق بیان کیے اور ایف آئی اے نے کارروائی کی۔

لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بلکہ اس دن قومی اجلاس ہونا تھا جسے ملتوی کردیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اظہار رائے پر قدغن کی وجہ سے آدھا ملک ہم سے چلا گیا، جہاں اظہار رائے کی آزادی نہیں وہاں ترقی ممکن نہیں، یہ عدالت ایف آئی اے کو صرف پبلک آفس ہولڈر کے تحفظ کے لیے نہیں چھوڑے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پیکا ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کریں گے، یوسف رضا گیلانی

ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص کو آئین کے تحت اظہارِ رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے، اگر سیاسی جماعتوں کو سوشل میڈیا سے مسئلہ ہے تو خود اقدامات کریں، سیاسی جماعتیں بھی سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل کو عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کا کیا ہوگا، وہ کہیں گے ایس او پیز کے تحت گرفتار کیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں ایف آئی اے کا دفاع نہیں کروں گا، اس عدالت کا حکم موجود ہے۔

پی ایف یو جے کے وکیل عادل عزیز قاضی نے کہا کہ کینیا کی عدالت نے بھی اس حوالے سے فیصلہ دیا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ کسی بڑے ملک کا حوالہ دیں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی درخواستوں کو خارج کرتے ہیں، سیاسی جماعتیں اگر ذمہ داری پوری کریں تو عدالتوں میں آنا ہی نہ پڑے۔

عدالت نے آرڈیننس کے تحت گرفتاریوں سے روکنے کے احکامات میں توسیع کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان کی طرف سے ہدایات لینے اور دلائل کے لیے مہلت کی استدعا پر سماعت 10 مارچ تک ملتوی کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں