کووڈ کی وبا اس بیماری سے محفوظ رہنے والے افراد کے لیے بھی تباہ کن

24 فروری 2022
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

ایسے افراد جو کبھی کووڈ 19 سے متاثر ہوئے، کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں ان کو بھی مختلف دماغی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کی تحقیق میں بتایا گی کہ کووڈ کی وبا کے دوران طرز زندگی متاثر ہونے سے بیماری سے محفوظ رہنے والے افراد کے دماغوں میں بھی ورم متحرک ہوسکتا ہے جس کا نتیجہ تھکاوٹ، توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات اور ڈپریشن کی شکل میں نکل سکتا ہے۔

کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر سماجی اور معاشی تبدیلیاں آئی جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر افراد مختلف طریقوں سے متاثر ہوئے۔

انسانی دماغ پر وبا کے اثرات کو جانچنے کے لیے ہی اس تحقیق پر کام کیا گیا تھا۔

تحقیق کے لیے اس بیماری سے محفوظ رہنے والے 57 افراد کے خون کے نمونوں، رویوں کے ٹیسٹ اور دماغی امیجنگ ڈیٹا کو لاک ڈاؤن سے پہلے اکٹھا کیا جبکہ لاک ڈاؤن کے بعد 15 افراد کے ڈیٹا کو اکٹھا کیا گیا۔

لاک ڈاؤن کے بعد لاک ڈاؤن کے نفاذ سے قبل کے مقابلے میں پابندیوں کے بعد تحقیق میں شامل افراد میں دماغی ورم کی سطح بڑھانے والے 2 عناصر ٹرانسلوکیٹر پروٹین اور مائینوسٹول میں اضافے کو دیکھا گیا۔

جن افراد نے مزاج، ذہن اور جسمانی تھکاوٹ سے جڑی مختلف علامات رپورٹ کیں، ان کے دماغ کے مخصوص حصوں میں ٹرانسلوکیٹر پروٹین کی سطح بہت زیادہ تھی۔

اس پروٹین کی سطح میں اضافے سے متعدد ایسے جینز پر بھی اثرات مرتب ہوئے جو مدافعتی افعال سے جڑے ہوتے ہیں۔

محققین نے بتایا کہ اگرچہ کووڈ 19 پر تحقیق میں بہت زیادہ اضفہ ہوا ہے مگر اس بیماری سے محفوظ رہنے والے افراد میں سماجی اور طرززندگی متاثر ہونے سے دماغ پر ہونے والے اثرات پر کام نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ وبا نے انسانی صحت کو وائرس کے براہ راست اثرات سے بھی آگے جاکر انسانی صحت کو متاثر کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دماغی ورم کے کردار کو تسلیم کرکے ممکنہ حکمت عملیاں تشکیل دے کر صحت کے شعبے پر بڑھنے والے بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ پرتناؤ واقعات کے ساتھ دماغی ورم کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل برین، بی ہیوئیر اینڈ امیونٹی میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں