اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


فضائی عملے کے ہر رکن کو ایک وقت میں 3 طیاروں پر پرواز کرنے کا لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔ ابتدائی تربیت کے دوران میں نے بھی 3 طیاروں کا کورس پاس کیا۔ ان میں سے ایک عظیم جہاز بوئنگ 747 بھی تھا۔ اس کی اپنی شان تھی۔ لیکن جلد ہی اس کی جگہ بوئنگ 777 طیاروں نے لے لی۔

یہ ایندھن کی بچت بھی کرتے اور زیادہ لمبے فاصلے تک پرواز کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ طیارے فضائی بیڑے میں شامل ہونے کے ساتھ ہی ایک طویل الدہر پرواز ہمارے ماہانہ شیڈول کی زینت بنی جو براہِ راست کراچی سے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کی تھی۔

عام طور پر عملے کے سب اراکین 8 سے 9 گھنٹے کی مسلسل پرواز کرنے کے عادی ہوچکے تھے کہ یورپ کے کسی شہر جاتے ہوئے اتنا وقت تو لگ ہی جاتا ہے۔ لیکن یہ اس وقت سے دگنی مسافت کی پرواز تھی۔ یعنی کہ 14 سے 16 گھنٹے کی مسلسل پرواز۔ یہ صرف اور صرف پرواز کا دورانیہ بتا رہا ہوں آپ کو یعنی طیارے نے اڑان بھری اور پھر منزل پر اترا۔ اس میں گھر سے ہوائی اڈے اور منزل پر اتر کر ہوائی اڈے سے ہوٹل جانے کا وقت شامل نہیں ہے۔

تو جناب اگر 6 گھنٹے اور جمع کریں تو یہ نوکری تقریباً ایک پورا دن لے لیتی ہے۔ گھر میں اپنے بستر سے اتر کر سمندر پار ٹورنٹو پہنچ کر ہوٹل کے کمرے کے بستر پر لیٹنے تک پورے 24 گھنٹے۔

اس پرواز پر 3 اور ساتھی ساتھ تھے جو اچھے دوست بھی تھے۔ بس ایک دوسرے کو حوصلہ دیتے پرواز کی ہامی بھرلی۔ پہلے کراچی پہنچے اور تقریباً 2 دن گزارے کیونکہ اس پرواز کو کرنے کے لیے پرواز سے پہلے 2 دن آرام کا وقت دیا جانا اصول و ضوابط کی رو سے ضروری ہوتا ہے۔

خیر سے وہ گھڑی آگئی جس کا بالکل بھی انتظار نہیں تھا۔ پرواز سے پہلے عملہ اکٹھا ہوا اور بریفنگ ہوئی۔ میں اور جو اراکین پہلی بار اس پرواز کو کرنے والے تھے ان کو خاص تاکید کی گئی کہ بھئی آپ لوگوں نے اپنے آرام اور کھانے پینے کا خیال رکھنا ہے اس لیے کہ راستہ بہت لمبا ہے۔ لیکن ہمیں معلوم تھا کہ یہ تنبیہات مثل آئی ایم ایف ہیں کہ جو وہ قرضہ دینے سے پہلے کسی پسماندہ ملک کو دل پشوری کی نیت سے دیتا ہے۔ کام تو ہمیں ہی کرنا تھا جہاز پر بشمول ’معزز مہمانان گرامی‘ کو سنبھالنے کے۔

ٹورونٹو کی پرواز کا مطلب 24 گھنٹے کی ڈیوٹی—تصویر: لکھاری
ٹورونٹو کی پرواز کا مطلب 24 گھنٹے کی ڈیوٹی—تصویر: لکھاری

اس پرواز میں قوائد کی رو سے ایک اچھی بات یہ تھی کہ اس میں عملے کے ہر رکن کو 3 گھنٹے آرام کرنے کا وقت دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے جہاز کے اندر مخصوص جگہوں پر ’بنکر‘ بنے ہوتے ہیں۔ یہ قبر نما دڑبے تقریباً 7 فٹ لمبے اور 3 فٹ اونچے ہوتے ہیں۔ چوڑائی کا حساب یوں لگائیں کہ اگر آپ ٹنڈے ہوکر دونوں بازوں پھیلائیں تو کہنیاں اطراف میں بالکل فٹ ہوجائیں گی۔

تربیتی مراحل میں تو یہ سوچا تھا کہ جب اس جگہ سونا پڑا تو دیکھی جائے گی لیکن جب واقعی سونا پڑا تو دیکھی ہی نہ گئی۔ پہلا گھنٹہ تو جاگتے ہی گزر گیا۔ بندہ بیٹھا ہو تو جہاز کے ہلنے جلنے پر نشست کو پکڑ لیتا ہے۔ اب لیٹ کر کیا پکڑوں کہ جہاز ہلے زرا سا تو لگے دل ڈوب رہا ہے۔ اصل میں لیٹ کر ٹربیولینس جانچنے کا سنہری موقع پہلی بار ہاتھ لگا تھا۔ خیر کمر سیدھی ہوئی تو کچھ غنودگی طاری ہو ہی گئی اور 3 گھنٹے سے کچھ پہلے سیٹ کیے ہوئے الارم پر آنکھ کھلی۔

اس پرواز میں دن ختم ہی نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ یہ پرواز میں نے عید الفطر پر کی تھی۔ وہ میرے لیے عید کا طویل ترین دن تھا۔ مثال کے طور پر صبح 7 بجے اگر پرواز نے اڑان بھری ہے تو مغرب کی سمت مسلسل پرواز کرتے ہوئے سورج سے مقابلہ جاری رہتا ہے۔ کچھ روشنی ہوتی ہے تو جہاز نے ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کچھ فاصلہ طے کرلیا ہوتا ہے اور مکمل روشنی نہیں ہوپاتی۔ یعنی یوں سمجھیں کہ سورج کی روشنی راستے میں آنے والے شہروں میں پہنچنے سے پہلے ہی جہاز ان کے اوپر سے گزرنا چاہتا ہے۔

جیسے کوئی موٹر سائیکل والا سگنل کھلتے ہی ساتھ چلتی گاڑی والے سے آگے نکلنے کی کوشش کرے اور گاڑی والا اس کی اس حرکت سے نالاں ہوکر فل اسپیڈ میں گاڑی دوڑا کر آگے نکال لے جائے، اور پھر ڈرائیور زیرِ لب مسکرا کر کہتا ہے، ’اچھا جی ابو سے ریسیں‘ ایسے ہی سورج ہمارے طیارے کو طنزیہ نگاہ سے دیکھتا ہوا آخر جیت جاتا ہے۔

پھر بھی جہاز پوری کوشش کرتا ہے اور اس بات کا اندازہ آپ ایسے لگائیں کہ کراچی سے صبح 7 بجے چلنے والی پرواز 14 گھنٹے بعد دوپہر 12 بجے ٹورنٹو پہنچ جاتی ہے۔ ہے نا مزے کی بات۔ نہیں سمجھ آئی؟ دراصل یہ ٹورنٹو کا مقامی وقت ہے اور یہ شہر پاکستان کے وقت سے 9 گھنٹے پیچھے چلتا ہے۔

ٹورنٹو پہنچ کر عجیب سا لگ رہا تھا۔ جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ یہاں راقم الحروف کی مراد اپنے پینڈو پن سے نہیں بلکہ جیٹ لیگ (Jet Lag) اور اوور فٹیگ (Over Fatigue) ہونے کی وجہ سے حالت غیر ہونا مراد ہے۔

ہوٹل کی شاندار عمارت میں داخل ہوئے، الاٹ شدہ کمرے لیے اور وداع ہوئے۔ کپڑے بدل کر لیٹا تو نیند نہ آئے۔ دماغ نے تو عام حالات کی طرح یہاں بھی چلنے سے انکار کردیا اور جسم یہ ڈیمانڈ کر رہا تھا کہ قالین پر لیٹ کر اپنے اوپر سڑکیں سیدھی کرنے والا بلڈوزر گزارا جائے یہاں تک کہ میرا اسٹیکر بن جائے۔ آخرکار دل کی طرف متوجہ ہوا تو سب سے آخر میں دل سے پوچھنے پر وہ سڑو رشتہ داروں کی طرح ناک چڑھانے لگا اور کہنے لگا

اچھا صلہ دیا تو نے میرے پیار کا
یار نے ہی لوٹ لیا گھر یار کا

جس سے مجھے یاد آیا کہ یاروں کی خبر لی جائے کہ ان کا کیا حال ہے۔ معلوم ہوا یہی صورتحال ان کو بھی درپیش ہے۔ آخر اکٹھے ہوئے اور کھانا کھایا۔ سب کو نیند آگئی لیکن میرا وہی حال۔ فیصلہ کیا کہ تیراکی کی جائے کہ شاید کچھ طبعیت بہتر ہوجائے۔

ٹورونٹو کے ہوٹل کی لابی—تصویر: لکھاری
ٹورونٹو کے ہوٹل کی لابی—تصویر: لکھاری

رات کے وقت ٹورونٹو کی اسکائی لائن کا منظر—تصویر: لکھاری
رات کے وقت ٹورونٹو کی اسکائی لائن کا منظر—تصویر: لکھاری

گراؤنڈ فلور چھان مارا لیکن سوئمنگ پول نا ملا۔ آخر استقبالیہ پر کھڑی دوشیزہ سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ پول 26ویں منزل پر ہے۔ میں کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ یقین تو نہیں آیا لیکن دوشیزہ کا منہ ایسا تھا کہ میں سمجھ گیا وہ مذاق نہیں کر رہی، اور پھر مجھ سے انگریزی میں مزید اور بات کرنے کی ہمت بھی نہیں تھی لہٰذا لفٹ میں سوار ہوا اور 26ویں منزل پر پہنچ گیا۔ واقعی پول موجود تھا بلکہ جم اور سوانا باتھ بھی تھا۔

اگلے دن ایک دوست کے اصلی ماموں جو وہاں رہتے تھے، تشریف لے آئے اور ہمیں شہر گھمایا۔ عظیم آبشار نیاگرا فال اور اس کے قریب ایک بہت بڑا نباتاتی باغ (بوٹینیکل گارڈن) دیکھا۔ مشہورِ زمانہ ٹم ہارٹن کی کافی پی اور کچھ ڈبے بھی خریدے۔

عظیم آبشار نیاگرا فال—تصویر: لکھاری
عظیم آبشار نیاگرا فال—تصویر: لکھاری

نیاگرا فال—تصویر: لکھاری
نیاگرا فال—تصویر: لکھاری

نیاگرا فال کے قریب قائم نباتاتی باغ کا داخلی دروازہ—تصویر: لکھاری
نیاگرا فال کے قریب قائم نباتاتی باغ کا داخلی دروازہ—تصویر: لکھاری

مشہورِ زمانہ ٹم ہارٹن کافی کا اشتہار—تصویر:لکھاری
مشہورِ زمانہ ٹم ہارٹن کافی کا اشتہار—تصویر:لکھاری

ہوٹل بھی شہر کے وسط میں واقع تھا جہاں قریب ہی تفریح کے سارے مواقع موجود تھے۔ اس کے بعد ایک لمبوترا مینار ’سی این ٹاور‘ ملاحظہ کیا جو اس شہر کی خاص پہچان ہے۔ بس سیر کے دوران گاڑی میں بیٹھے بیٹھے نیند آجاتی کہ پاکستان کے وقت سے 9 گھنٹے کا فرق تھا یہاں۔ یعنی دن کو رات اور رات کو دن بناکر گزارنا پڑ رہا تھا۔

سی این ٹاور—تصویر: لکھاری
سی این ٹاور—تصویر: لکھاری

سی این ٹاور سے شہر کا نظارہ—تصویر: لکھاری
سی این ٹاور سے شہر کا نظارہ—تصویر: لکھاری

2 دن جسمانی اور دماغی طور پر خوب گھومے۔ اب تقریباً 50 گھنٹے بعد واپس پاکستان کی طرف روانگی تھی۔ ایک تحقیق کے مطابق انسان جتنے گھنٹے اپنے مقامی وقت سے آگے یا پیچھے جاتا ہے، اس کے جسم کو اتنے ہی دن درکار ہوتے ہیں واپس اسی معمول میں آنے کے لیے۔ یعنی سعودی عرب پاکستان کے وقت سے 2 گھنٹے پیچھے ہے۔ یہاں سے جانے والے یا وہاں سے آنے والے کو نارمل روٹین میں آنے کے لیے 2 دن درکار ہوں گے۔

اب اندازہ کریں کہ ہم 9 گھنٹے کے فرق رکھنے والے شہر سے 2 دن کے بعد واپس 9 گھنٹے کے فرق میں غرق ہونے جارہے تھے۔ اس جیٹ لیگ نے ایسی تباہی مچائی تھی کہ کچھ نہ پوچھیں۔ ابھی شکر یہ تھا کہ واپسی کی پرواز صرف اور صرف 12 گھنٹے 30 منٹ کی تھی کیونکہ ہوا موافق مل گئی تھی اور اس کا رخ بھی مغرب سے مشرق کی جانب تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

Mian Kashif Mar 03, 2022 08:35am
چھا گیا جگر۔ واقعی ایسا لگتا ہے جیٹ لیگ ہو گیا۔
شجاع عباس Mar 03, 2022 09:52am
بہت اعلیٰ ، زبردست
Sadaf Zehra Mar 03, 2022 11:38am
V informative and interesting
Salazar Mar 06, 2022 02:21pm
Amazing again sir. The picture of Eaton centre and other places took me on a nostalgic trip. I presume that you were there circa 2019 or so, judging from Galaxy Note 10 ad. I was in Toronto from 2011 to 2015.