روس کی مذاکرات پر رضامندی کے ساتھ یوکرین کے دوسرے بڑے شہر پر چڑھائی

اپ ڈیٹ 02 مارچ 2022
روس، یوکرین کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور یوکرین اور بیل روس کی سرحد پر ہوا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا — فوٹو: اے پی
روس، یوکرین کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور یوکرین اور بیل روس کی سرحد پر ہوا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا — فوٹو: اے پی

کریملن نے کہا ہے کہ روس کا ایک وفد یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات جاری رکھنے کے لیے تیار ہے جبکہ مغرب نواز ملک پر ماسکو کا حملہ ساتویں دن میں داخل ہو گیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق کریملن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہمارا وفد بات چیت جاری رکھنے کے لیے تیار ہے، ماسکو کے وفد کو توقع ہے کہ بدھ کی شام مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ صدر ولادیمیر پیوٹن کے معاون ولادیمیر میڈنسکی، یوکرین پر روس کے اعلیٰ مذاکرات کار ہیں لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مذاکرات کا اگلا دور کہاں ہوگا۔

روسی اور یوکرینی وفود کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور یوکرین اور بیلاروس کی سرحد پر ہوا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

یہ بھی پڑھیں: 40 میل طویل روسی فوجی قافلے کی کیف کو دھمکی، گولہ باری میں شدت

سابق سوویت ریاست میں ماسکو کے مسلسل فضائی حملے کے بعد روس کی افواج یوکرین کے دوسرے سب سے بڑے شہر خارکیف میں داخل ہوگئیں، جس کے ساتھ ہی خارکیف کی سڑکوں پر جھڑپیں شروع ہو گئیں۔

ولودیمیر زیلنسکی کی مغرب نواز حکومت کا تختہ الٹنے کے ولادیمیر پیوٹن کے مشن کو حاصل کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے روسی فوجیوں کے یوکرین میں گھسنے کے بعد سے سیکڑوں شہریوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔

روسی افواج نے بڑے پیمانے پر بمباری کی ہے اور شہری مراکز کو گھیرے میں لے لیا ہے لیکن یوکرین کا اصرار ہے کہ روس کی جانب سے ابھی تک کسی بڑے شہر پر قبضہ نہیں کیا جا سکا ہے۔

یوکرین کی فوج نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ 'ٹیلی گرام' پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ روسی فضائیہ کے دستے خارکیف میں اترے اور ایک مقامی ہسپتال پر حملہ کیا۔

مزید پڑھیں: امید ہے پاکستان بھی روسی حملے کی مذمت میں ٹھوس مؤقف اختیار کرے گا، یوکرینی سفیر

روس نے شہر میں ایک رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا جس میں 8 افراد ہلاک ہوئے، جس کا موازنہ 1990 کی دہائی میں سراجیوو میں شہریوں کے قتل عام سے کیا گیا اور اس کی مذمت کی گئی جبکہ صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اسے جنگی جرم قرار دیا۔

یوکرین کے وزیر داخلہ کے مشیر کے مطابق خارکیف میں ایک فلائٹ اسکول کی بیرکوں میں فضائی حملے کے بعد آگ بھڑک اٹھی۔

ٹیلی گرام پر ایک بیان میں ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خارکیف میں عملی طور پر اب کوئی ایسا علاقہ نہیں بچا جہاں ابھی تک کوئی گولہ بارود نہ لگا ہو۔

روسی سرحد کے قریب واقع 14 لاکھ آبادی کے شہر خارکیف کے شہریوں کی بڑی تعداد روسی زبان بولنے والوں کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین کی سرحدوں کے قریب ڈیڑھ لاکھ روسی فوجی تعینات ہیں، یورپی یونین

روسی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جنوبی یوکرین کے شہر خرسون کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، وزارت دفاع کے ترجمان نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مسلح افواج کے روسی ڈویژن نے خرسون کے علاقائی مرکز کو مکمل کنٹرول میں لے لیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ عوامی خدمات اور ٹرانسپورٹ معمول کے مطابق چل رہے ہیں جبکہ شہر میں خوراک اور ضروری اشیا کی قلت کا سامنا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ روسی فوج اور مقامی حکام کے درمیان امن و امان برقرار رکھنے، آبادی کے تحفظ اور عوامی خدمات کو فعال رکھنے پر بات چیت جاری ہے۔

خرسون کے میئر کا فیس بک پر ایک پوسٹ میں کہنا تھا کہ ہم اب بھی یوکرین میں ہیں، اب بھی مضبوط ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روس نے یوکرین کے سر پر بندوق تان رکھی ہے، برطانوی وزیراعظم

بظاہر روسی فوج کے دعووں کو جھٹلاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مرنے والوں کی لاشوں کو اکٹھا کرنے اور جہاں بجلی، گیس، پانی اور حرارتی نظام کو نقصان پہنچا ہے، وہاں اسے بحال کرنے کے لیے راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ان حالات میں ان کاموں کو مکمل کرنا ایک معجزے جیسا ہے۔

بیلاروس کے حملے کا خدشہ

یوکرین کی وزارت دفاع نے بھی کہا ہے کہ اسے اپنی شمالی سرحد پر بیلاروس سے حملے کا خدشہ ہے، وزارت دفاع نے فیس بک پر جاری ایک بیان میں کہا کہ بیلاروس کے فوجیوں کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے اور وہ یوکرین کے ساتھ سرحد کے قریب ترین علاقوں میں تعینات ہیں۔

بیلٹا نیوز ایجنسی کے مطابق بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملک کے جنوب میں مزید فوجی بھیجنے کا حکم دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور روس، یوکرین کے معاملے پر سخت تنازع سے بچنے کے لیے پرعزم

تاہم انہوں نے کہا کہ روس کے قریبی اتحادی بیلاروس کی افواج یوکرین پر حملے میں حصہ نہیں لیں گی۔

جنوبی یوکرین میں بحیرہ ازوف پر واقع شہر ماریوپول روسی بمباری کے بعد بجلی سے محروم ہے۔

روس کی وزارت دفاع نے کہا کہ ماسکو کے لیے ایک اہم فتح حاصل کرتے ہوئے اس کے فوجیوں نے بحیرہ ازوف کے ساحل کے ساتھ مشرقی یوکرین سے ماسکو نواز باغی افواج کے ساتھ رابطہ قائم کیا ہے۔

کمپنیاں روس سے نکل رہی ہیں

روس نے بین الاقوامی پابندیوں، بائیکاٹ اور پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے جارحانہ کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد یوکرین کے روسی بولنے والوں کا دفاع کرنا اور حکومتی قیادت کو گرانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روسی صدر کو اندازہ نہیں آگے کیا ہونے والا ہے، جو بائیڈن

روسی جارحیت کے جواب میں مزید مغربی کمپنیاں روس میں منصوبوں سے دستبردار ہو گئی ہیں، جس سے ماسکو پر معاشی سختیاں مزید گہری ہوگئی ہیں، جس کے بعد اس کی کرنسی شدید گراوٹ کا شکار ہوئی۔

ایپل، ایگزون موبائل اور بوئنگ کمپنیوں نے روس میں کاروبار کو واپس لینے یا کاروبار کو منجمد کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔

یہ اقدام ڈزنی، فورڈ، ماسٹر کارڈ سمیت دیگر کمپنیوں کی جانب سے کیے گئے اعلانات کے بعد کیے گئے۔

اس حملے نے عالمی منڈیوں کو ایک مشکل صورتحال میں دھکیل دیا ہے اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: روس کا امریکی سفارتی عملے کو ملک سے نکلنے کا حکم

روس پر پابندیاں عائد کرنے میں سب سے آگے بڑھتے ہوئے جرمنی نے یوکرین کے لیے ہتھیاروں کا وعدہ کیا جبکہ یورپی یونین نے کہا کہ وہ یوکرین کے لیے ہتھیار خریدے گا اور فراہم کرے گا۔

یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے یوکرین کو یورپی یونین میں شامل کرنے کی فوری اپیل کا اعادہ کیا ہے۔

بچنے کی گنجائش نہیں

اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کا کہنا ہے کہ اب تک یوکرین سے 6 لاکھ 60 ہزار سے زیادہ لوگ بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں اور بڑے شہروں پر کنٹرول کے لیے لڑائیوں کی وجہ سے مزید بہت سے لوگوں کے فرار ہونے کی توقع ہے۔

دارالحکومت کیف کے رہائشی عارضی بم پناہ گاہوں میں محصور ہیں جو اپنے ساتھ ہونے والی لڑائی کے منتظر ہیں جبکہ بہت بڑا روسی فوجی قافلہ شہر کے بالکل شمال میں تعینات ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں