پنجاب: پیوندکاری کیلئے ’اعضا کے تبادلے‘ کا منصوبہ منظور

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2022
منصوبے کی منظوری سے پیوند کاری کے منتظر مریضوں کی تعداد کم ہونے کا امکان ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
منصوبے کی منظوری سے پیوند کاری کے منتظر مریضوں کی تعداد کم ہونے کا امکان ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

حکومتِ پنجاب نے اعضا کی اسمگلنگ کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ’سویپ ٹرانسپلانٹ‘ منصوبے کی منظوری دے دی جس کے تحت مریض ایسے عطیہ دہندگان سے اعضا کا عطیہ لے سکیں گے جن کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہ ہو۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹیشن اتھارٹی(پی-ہوٹا) کے اس اقدام نے پاکستان کو اعضا کی پیوندکاری کے شعبے میں یہ سہولت فراہم کرنے والے چند ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔

اس منصوبے کی پنجاب کی وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد کی زیر صدارت ایک اجلاس میں منظوری دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب: ہسپتالوں میں صلاحیت سے کم اعضا کی پیوندکاری سے اتھارٹی پریشان

پی ہوٹا کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر اسد اسلم کے مطابق اس سہولت کے تحت اب ایک غیر رشتہ دار عطیہ دہندہ اپنا عضو کسی وصول کنندہ کو عطیہ کر سکتا ہے جس کے خاندان کا کوئی فرد بدلے میں ایک عضو دوسرے مریض کو عطیہ کریں گے۔

اسے ایک انقلابی قدم قرار دیتے ہوئے طبی برادری کا خیال ہے کہ یہ صوبہ پنجاب میں اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری کی سرگرمیوں کے خلاف پاکستان کی لڑائی میں ایک گیم چینجر ثابت ہوگا۔

اس اقدام سے ایسے مریضوں کی تعداد بھی کم ہو سکتی ہے جنہیں عطیہ دہندگان کا بندوبست کرنے کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔

بھارت نے یہ جان بچانے والا منصوبہ اپنے ٹرانسپلانٹیشن آف ہیومن آرگنز ایکٹ 2011 میں ترمیم کے بعد متعارف کرایا تھا، جس سے وہ کئی سال قبل پہلا سویپ ٹرانسپلانٹ کرسکا تھا۔

مزید پڑھیں:’انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کو روکنا ہوگا‘

پی ہوٹا کے ڈی جی پروفیسر اسد اسلم نے لاہور میں صوبائی ہیلتھ سیکریٹریٹ میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے بعد ڈان کو بتایا کہ سویپ ٹرانسپلانٹ کی منظوری پاکستان کے اعضا کی پیوند کاری کی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے کیونکہ اس سے پیوندکاری کے لیے اعضا کی دستیابی میں اضافہ ہوگا اور جگر اور گردے کی دائمی بیماری میں مبتلا ایسے مریضوں کو بہت مدد ملے گی جن کے خاندانوں میں ہم آہنگ ڈونر نہیں ہیں۔

سال 2013 میں صوبائی ریگولیٹر کے طور پر قائم کیا گیا پی ہوٹا بنیادی طور پر صوبائی ادارہ ہے جو اعضا اور اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹیشن کی نگرانی اور پنجاب میں اعضا کے عطیہ دہندگان کی رجسٹریشن اور عطیہ کو بڑھانے کے اقدامات کے لیے ذمہ دار ہے۔

یہ ان نجی اور سرکاری ہسپتالوں کو ریگولیٹ کرتا ہے جو طبی علاج کے لیے انسانی خلیات، اعضا اور بافتوں کو ہٹانے، ذخیرہ کرنے اور استعمال کرنے کے ساتھ مردہ اور زندہ لوگوں کے عطیات کی تمام منظوریوں کی نگرانی کرتے ہیں۔

ڈی جی کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ ان لوگوں کے لیے کامیاب ہے جن کے خون کا گروپ خاندان میں کسی سے مماثلت نہیں رکھتا اور انہیں کسی اجنبی سے عطیہ لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایس آئی یوٹی میں جگر کی کامیاب پیوند کاری کا آغاز

انہوں نے مزید کہا کہ پی ہوٹا کی نئی اسکیم یونائیٹڈ کنگڈم لیونگ کڈنی شیئرنگ اسکیم کے میگا پروگرام کی بھی عکاس ہے جو 2007 میں شروع کیا گیا تھا کیونکہ بہت سے 'مشکل سے میچ' والے مریضوں کے دوست اور خاندان والے تھے جو گردہ عطیہ کرنا چاہتے تھے لیکن خون کے گروپ یا بافتوں کی قسم کے لحاظ سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔

پروفیسر اسلم نے یقین ظاہر کیا کہ پنجاب میں فوت ہوجانے والے افراد کے اعضا کی پیوند کاری بھی جلد شروع کر دی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں