کووڈ سے دماغی حجم سکڑنے اور یادداشت سے محرومی کا خطرہ بڑھتا ہے، تحقیق

08 مارچ 2022
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 دماغ کے حجم کو سکیڑ سکتی ہے، ان حصوں کا حجم کم کرسکتی ہے جو جذبات اور یادداشت کو کنٹرول کرتے ہیں جبکہ ان حصوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے جو سونگھنے کی حس کو کنٹرول کرتے ہیں۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ تحقیق پہلی بڑی تحقیق ہے جس میں کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل اور بعد کے دماغی اسکینز کا موازنہ کیا گیا تھا۔

اس موازنے سے ابتدائی بیماری کے کئی ماہ بعد دماغی حجم سکڑنے اور ان ٹشوز کو نقصان پہنچنے کا انکشاف ہوا جو سونگھنے کی حس اور دماغی صلاحیتوں سے منسلک ہوتے ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں 51 سے 81 سال کی عمر کے 785 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کے دماغی اسکینز کورونا وائرس کی وبا سے قل اور اس کے دوران لیے گئے تھے۔

ان میں سے نصف سے زیادہ میں ان اسکینز کے درمیان کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔

اس بیماری سے محفوظ رہنے والے 384 افراد کے اسکینز کا موازنہ ان افراد سے کیا گیا جو کورونا سے متاثر ہوئے تھے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد کے دماغ اور گرے میٹر کے کچھ حصے سکڑ گئے بالخصوص وہ حصے جو سونگھے کی حس سے منسلک ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر کووڈ کے شکار افراد میں اس سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں سونگھنے کی حس سے منسلک اہم دماغی حصے parahippocampal gyrus کا حجم 1.8 فیصد جبکہ cerebellum کا حجم 0.8 فیصد تک سکڑ گیا۔

ان حصوں کے سگنلز کے عمل میں مداخلت کے نتیجے میں ممکنہ طور پر مختلف علامات جیسے سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا ہوتا ہے۔

اسی طرح کووڈ سے متاثر افراد کا ذہنی صلاحیت کے ٹیسٹوں میں اسکور اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں کم تھا۔

یہ کم اسکور ذہنی صلاحیتون سے جڑے دماغی حصے cerebellum کے ٹشوز کے نقصان کا عندیہ بھی دیتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ اثرات معمر افراد اور بیماری کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والوں میں زیادہ نمایاں تھے مگر معمولی بیمار یا بغیر علامات کی بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں بھی ان کا مشاہدہ ہوا۔

محققین نے بتایا کہ اس حوالے سے مزید اسکینز کی ضرورت ہے تاکہ تعین کیا جاسکے کہ یہ دماغی تبدیلیاں مستقل ہیں یا جزوی طور پر ریورس کی جاسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جو کووڈ سے دماغی صحت پر مرتب ہونے والے بدترین اثرات کا عندیہ دیتے ہیں۔

یہاں تک کہ معمولی بیمار افراد کے دماغی افعال جیسے توجہ مرکوز کرنے اور چیزیں منظم کرنے کی صلاحیت بدتر ہوگئی اور اوسطاً دماغی حجم میں 0.2 سے 2 فیصد کمی آئی۔

مگر محققین نے یہ نہیں بتایا کہ ویکسینیشن سے ان اثرات کی روک تھام پر کوئی مدد ملتی ہے یا نہیں مگر حال ہی میں یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی نے 15 تحقیقی رپورٹس کے ایک تجزیے میں دریافت کیا تھا کہ ویکسینیشن کرانے والے افراد میں کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا خطرہ 50 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں