مودی کی جماعت کا بھارت کی سب سے بڑی ریاست میں اقتدار برقرار رہنے کا امکان

اپ ڈیٹ 10 مارچ 2022
شمالی بھارت کی اس اہم ریاست کی سربراہی یوگی ادتیاناتھ کر رہے ہیں جو ایک پنڈت تھے — فائل فوٹو: رائٹرز
شمالی بھارت کی اس اہم ریاست کی سربراہی یوگی ادتیاناتھ کر رہے ہیں جو ایک پنڈت تھے — فائل فوٹو: رائٹرز

بھارت کی انتخابات اتھارٹی نے 5 ریاستوں میں انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی شروع کردی اور اتر پردیش کے غیر حتمی نتائج کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا اقتدار برقرار رہنے کا امکان ہے۔

2024 کے انتخابات سے قبل یہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے ایک اہم امتحان ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’ اے پی‘ کے مطابق اتر پردیش 23 کروڑ آبادی کے ساتھ بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے۔

شمالی بھارت کی اس اہم ریاست کی سربراہی یوگی ادتیاناتھ کر رہے ہیں جو ایک پنڈت تھے اور سیاستدان بننے پر انہیں مسلمان مخالف بیان بازی اور تشدد پر عروج حاصل ہوا۔

پانچوں ریاستوں میں آج شام تک نتائج کا اعلان ہونے کا امکان ہے، ان ریاستوں میں اتر پردیش، پنجاب، اترکھنڈ، منی پور اور گووا شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارت: مغربی بنگال کے انتخابات میں خونریزی، 5 افراد ہلاک

یاد رہے کہ بی جے پی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں دو بار انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، جن کی قوم پرستی کے برانڈ نے انہیں بھارت کا نمایاں سیاستدان بنا دیا ہے۔

ان کی جماعت پہلے ہی پنجاب کے علاوہ 4 ریاستوں میں اپنے پنجے جما چکی ہے، پنجاب میں ایک ماہ قبل پولنگ کی گئی تھی۔

اترکھنڈ، منی پور اور گووا کی ریاستوں میں مودی کی اپنی جماعت یا علاقائی اتحادیوں کا اقتدار میں آنے کا امکان ہے۔

امکان ہے کہ پنجاب میں کانگریس کو عام آدمی پارٹی سے شکست ہوسکتی ہے، یہ جماعت 2013 میں وجود میں آئی تھی اور اس کا مقصد کرپشن ختم کرنا تھا، جس کے بعد مسلسل دو بار دہلی میں حکمرانی کی۔

2017 میں ہونے والے اترپردیش کے انتخابات میں بی جے پی اور ان کے اتحادیوں زبردست کامیابی حاصل کی، اس الیکشن میں کامیابی مودی کی مقبولیت اور ہندوتوا نظریے کی تقویت کا نتیجہ تھی، جس کے بعد نریندر مودی دوسری بار وزیر اعظم بنے۔

مزید پڑھیں: بھارت کی دو ریاستوں میں انتخابات مودی کیلئے اہم معرکہ

بی جے پی پر کورونا وائرس کے سبب مشکلات کا شکار ہونے والی معیشت چلانے کا دباؤ سب سے زیادہ ہے، ووٹروں کی بے روزگاری ان کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔

انتخابات سے قبل پارٹی نے ترقی کو فروغ دینے کا وعدہ کیا تھا اور فلاحی اقدامات کے ساتھ ووٹرز کی توجہ مرکوز کروائی تھی۔

تاہم ان کا بنیادی پیغام ان منصوبوں پر مشتمل تھا جو مذہب کو انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں کے ساتھ جوڑتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: الیکشن کمیشن نے مودی پر بنی ویب سیریز روک دی

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد بی جے پی کے ہندوتوا بنیادوں کو خوش کرنا تھا لیکن ووٹ کے نتائج سے متعلق غیر یقینی کے حالات ریاست کی اہم اپوزیشن سماج وادی پارٹی کے متعدد انحراف کے ذریعے پیدا ہوئے ہیں۔

اس کی سیکولر اپیل نے مختلف ذاتوں کے ساتھ ساتھ مسلم کمیونٹی کے ووٹروں کو بھی کھینچ لیا ہے۔

ایک اور سوالیہ نشان یہ ہے کہ کیا کسان، جو کہ ایک بااثر ووٹنگ بلاک ہے، بی جے پی کے پیچھے رہیں گے، بہت سے لوگ اب بھی زرعی قوانین کی پیروی پر نریندر مودی سے ناراض ہیں جنہیں نومبر میں منسوخ کرنے سے قبل ایک سال طویل احتجاج کیا گیا تھا۔

مظاہرین کے اس غصے نے پنجاب کی ریاست میں انتخابات کے لیے لوگوں کے رویے کو ترتیب دیا، پنجاب کو بھارت کے لیے اناج کا پیالہ سمجھا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارتی الیکشن دنیا کے مہنگے ترین انتخابات ثابت ہوئے

بی جے پی کو پنجاب میں نسبتاً کم مقبولیت حاصل ہے لیکن اپنے نئے ووٹروں کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ یہاں مہم چلائی گئی تھی۔

پنجاب میں جہاں لوگوں کو اپنی ریاستوں کی مذہبی ہم آہنگی پر فخر ہے، مودی کی پارٹی کی ہندو قوم پرست رسائی کے لیے یہ ایک امتحان ہے، جو 2014 سے شمالی بھارت کے بیشتر حصوں میں مقبول ہو رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں