جبر کے نظام کا خاتمہ ہی روشن مستقبل کا ضامن ہے، جسٹس عیسیٰ

اپ ڈیٹ 10 مارچ 2022
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ طرز حکمرانی سے متعلق پاکستانی عوام فیصلہ کر چکے ہیں—فوٹو: ایس او ایس پاکستان سوسائٹی
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ طرز حکمرانی سے متعلق پاکستانی عوام فیصلہ کر چکے ہیں—فوٹو: ایس او ایس پاکستان سوسائٹی

لندن: سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جبر کے نظام کا خاتمہ ہی روشن مستقبل کا ضامن ہے، صنفی تشدد اور بدسلوکی پر قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے لندن کی ایس او اے ایس یونیورسٹی میں ’پاکستانی عدلیہ، حقوق اور عمل کو برقرار رکھنے میں اس کا کردار‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک لیکچر میں انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر(مرحوم) کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ چیک اینڈ بیلنس اور ہر ایک کے انسانی حقوق کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے، اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں تو ایک ہی جھٹکے میں ہمارا سیاسی نظام بکھر بھی سکتا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے طلبہ، وکلا، تجزیہ کاروں اور صحافیوں کے بھرپور ہجوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہمیں عاصمہ جہانگیر جیسی خواتین کی عظمت کو تسلیم کرنا چاہیے، وہ ایک بڑی تبدیلی پیدا کرنے والی خاتون تھیں، جج ان سے خوفزدہ تھے اور یہ بات میں ان کی ستائش میں کہہ رہا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا فروغ نسیم اور شہزاد اکبر کےخلاف نیب کو خط

انہوں نے کہا کہ حالیہ عالمی واقعات نے آمریت کے حامیوں کے جوش و خروش کو کم کر دیا ہے۔

انہوں نے صنفی مساوات کے حوالے سے پاکستان کے ابتر ریکارڈ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ عاصمہ جہانگیر نے یہ ثابت کر کے ایک مثال قائم کی کہ مطلق العنان حکمرانی ناقابل تسخیر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے انتخابی نظام کی طرح عدلیہ بھی سب کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا ذریعہ ہے، میں صرف ایک ایسے مستقبل کا تصور چاہوں گا جس میں ظلم و ستم اور آمریت کا خاتمہ ہو۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موبائل ہیک کر لیا گیا

اس تقریب کا اہتمام ایس او اے ایس پاکستان سوسائٹی اور بلومسبری پاکستان نے مشترکہ طور پر کیا، جو لندن میں ایک تحقیقی مرکز ہے۔

وکیل اور اے جی ایچ ایس کی بورڈ رکن سلیمہ جہانگیر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سپریم کورٹ کے جج بننے تک کے سفر کو یاد کیا۔

اپنی والدہ عاصمہ جہانگیر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر شخصیات کے لیے نہیں ہمیشہ اصولوں کے لیے کھڑی ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

انہوں نے کہا کہ جب بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کا ٹیلی ویژن چینلز سے بلیک آؤٹ کیا گیا تو عاصمہ جہانگیر نے ان کا دفاع کیا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ یہ ان کے آزادی اظہار رائے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے قانون میں کہیں بھی یہ درج نہیں کہ ایک مفرور یا ایسا شخص جسے ہم پسند نہیں کر سکتے یا ووٹ نہیں دے سکتے، اسے اپنی رائے کے اظہار کا حق نہیں ہے، آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ 3 بار کے منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی میڈیا پر نشر نہیں ہونے دیا جاتا۔

سوال و جواب کے سیشن میں پاکستان کی جمہوریت پر ان کے یقین سے متعلق سوال پر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ایک بہت مشکل سوال ہے جس میں بہت سے مفروضے ہیں، کیا آپ کے پاس کوئی بہتر آپشن ہے؟ کیا فوجی آمریت میں کرپشن کم ہوئی؟

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کیس کے اقلیتی فیصلے نے تمام نظرثانی درخواستیں مسترد کردیں

انہوں نے کہا کہ محض مفروضے قائم کرنا اور آئین کو بدنام کرنا مناسب نہیں، طرز حکمرانی سے متعلق پاکستانی عوام فیصلہ کر چکے ہیں، ہمیں اسے ماننا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جو نظام ہم نے منتخب کیا اس کے مطابق حکومت چلنے دی جانی چاہیے، 20 سے 30 سال گزر جانے دیں، ہم نے آدھا ملک گنوا دیا، کیا یہ کرپٹ سیاستدانوں کی وجہ سے ہوا؟ یہ اقتدار کے بھوکے جرنیلوں کی وجہ سے ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں