یوکرین میں مشرق وسطیٰ کے جنگجوؤں کو استعمال کریں گے، روس

11 مارچ 2022
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن  نے کہا ہے کہ  نیٹو ممالک کے اقدام پر اپنے ردعمل سے متعلق سوال پر الگ بحث کی ضرورت ہے—فوٹو:رائٹرز
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ نیٹو ممالک کے اقدام پر اپنے ردعمل سے متعلق سوال پر الگ بحث کی ضرورت ہے—فوٹو:رائٹرز

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے مشرق وسطیٰ سے 16 ہزار رضاکاروں کو یوکرین میں لڑنے کے لیے روسی حمایت یافتہ باغیوں کے ساتھ تعینات کرنی اجازت دے دی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں اداے 'رائٹرز' کے مطابق روسی صدر کے فیصلے سے اس جنگ کو تقویت ملے گی جس سے متعلق مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ اس میں اب وہ شدت نہیں رہی۔

ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے یوکرین پر حملے کا حکم دینے کے صرف دو ہفتے بعد کرائے کے فوجی تعینات کیے جانے والے اس اقدام سے جنگ میں روسی فوجیوں کا جانی نقصان ہونے کے خطرات بہت حد تک کم ہوجائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی سینیٹ میں یوکرین کی امداد سمیت ایک کھرب 50 ارب ڈالر کا بل منظور

روس کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں وزیر دفاع سرگئی شوئگو کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں 16 ہزار رضاکار جنگجو موجود ہیں جو مشرقی یوکرین کے الگ ہونے والے ڈونباس کے علاقے میں روسی حمایت یافتہ افواج کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

کریملن کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو پیسے کے لیے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے ڈانباس میں رہنے والے لوگوں کی مدد کے لیے جانا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں تنازعات کے علاقے تک پہنچنے میں مدد کرنی چاہیے۔

سرگئی شوئگو نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ مغربی ساختہ جیولین اور اسٹنگر میزائل جو روسی فوج نے یوکرین میں قبضے میں لیے تھے، ڈانباس فورسز کے حوالے کیے جائیں، اس کے ساتھ دیگر ہتھیاروں جیسے کہ اینٹی ٹینک راکٹ کمپلیکس اورمین پورٹیبل ایئر ڈیفنس سسٹم، جسے 'مینپیڈز' کے نام سے جانا جاتا ہے،

یہ بھی پڑھیں: یوکرین صورتحال پر بائیڈن اور پیوٹن کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ

ولادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ اسلحے کی ترسیل کے حوالے سے، خاص طور پر وہ مغربی ساختہ ہتھیار جو روسی فوج کے قبضے میں آ چکے ہیں، یقیناً میں ان کو لوگانسک اور ڈونیٹسک عوامی جمہوریہ کے فوجی یونٹوں کو دینے کے امکان کی حمایت کرتا ہوں۔

دلادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ یوکرین میں خصوصی فوجی آپریشن روس کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے جبکہ امریکا نے نیٹو کو ہماری سرحدوں تک پھیلا دیا ہے اور کیف میں مغرب نواز رہنماؤں کی حمایت کی ہے۔

یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے وجود کی جنگ لڑ رہا ہے جبکہ امریکا اور اس کے یورپی اور ایشیائی اتحادیوں نے روسی حملے کی مذمت کی ہے اور چین نے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پیوٹن کو روس سے باہر فورس کے استعمال کا اختیار، فوج مشرقی یوکرین روانہ

سرگئی شوئگو کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ سے جنگجوؤں کے استعمال کے لیے ولادیمیر پیوٹن کی منظوری کی درخواست کرنے سے پہلے آپریشن کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا۔

دوسری جانب امریکی انٹیلی جنس کے سربراہوں نے قانون سازوں کو بتایا ہے کہ کہ روس یوکرین کی جانب سے کی گئی مزاحمت سے حیران ہے جس نے کریملن کو اس فوری فتح سے محروم رکھا جس کا اس نے سوچا تھا۔

سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر ولیم برنز کا کہنا تھا کہ یہ تمام صورتحال چین کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ چینی قیادت، صدر شی جن پنگ خاص طور پر اس صورتحال پر غیر مطمئن ہیں جو کچھ انہوں نے جزوی طور پر خود دیکھا جبکہ ان کی اپنی انٹیلیجنس ایجنسنیوں نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ کیا ہونے والا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا، روس مذاکرات میں یوکرین کے معاملے پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق

روسی وزیر دفاع سرگئی شوئگو کا کہنا ہے کہ مغربی ہتھیار یوکرین میں بالکل بے قابو طریقے سے آ رہے ہیں اور یہ کہ روسی فوج نے روس کی سرحد پر مغربی فوجی یونٹس کی تعمیر کے بعد اپنی مغربی سرحد کو مضبوط کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

سرگئی شوئگو کا کہنا ہے کہ عام عملہ ہماری مغربی سرحدوں کو مضبوط کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے، اور وہ منصوبہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے، منصوبے میں قدرتی طور پر نئے جدید کمپلیکس بھی شامل ہیں۔"

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ نیٹو ممالک کے اقدام پر اپنے ردعمل سے متعلق سوال پر الگ بحث کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں