بلوچستان عوامی پارٹی کا خیبرپختونخوا میں حکومت سے علیحدگی کا اعلان

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2022
بلوچستان عوامی پارٹی کے صوبائی پارلیمانی لیڈر بلاول آفریدی نے وڈیو بیان جاری کیا—فائل فوٹو:ڈان
بلوچستان عوامی پارٹی کے صوبائی پارلیمانی لیڈر بلاول آفریدی نے وڈیو بیان جاری کیا—فائل فوٹو:ڈان

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے خیبر پختونخوا (کے پی) کی صوبائی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔

بلوچستان عوام پارٹی کے صوبائی رکن اسمبلی بلاول آفریدی نے ویڈیو بیان میں خبیرپختونخوا کی صوبائی حکومت سے علیحدگی کے فیصلے کا اعلان کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی نے ہم سے کیا ہوا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبوں سے متعلق ہم سے مشاورت نہیں کی جاتی، فنڈز کی تقسیم کے بارے میں بھی ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں:حکومتی اتحادی جماعت 'بی اے پی' کا سینیٹ سے احتجاجاً واک آؤٹ

بلوچستان عوامی پارٹی کے صوبائی پارلیمانی لیڈر کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ کے 110 ارب روپے میں سے ہمیں کچھ نہیں دیا گیا، کے پی حکومت نے ہمیں کبھی مشاورتی عمل میں شامل نہیں کیا، قبائلی اضلاع سے منتخب ارکان کو بھی فیصلوں میں اعتماد میں نہیں لیا جاتا جو بڑی زیادتی ہے۔

بلاول آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں کو 25 ہزار نوکریاں دینے کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا جس کے بعد ہم نے صوبائی حکومت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے، فنڈز پی ٹی آئی ارکان کو دیے جا رہے ہیں اور ہم بی اے پی کی سینئر لیڈرشپ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

مزید پڑھیں:بی اے پی کا وفاقی کابینہ میں اپنا حصہ بڑھانے کا مطالبہ

بلاول آفریدی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے فنڈز سمیت ہمارے کسی مطالبے کو سنجیدگی سے نہیں سنا۔

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کی تعداد 4 ہے اور بلاول آفریدی اپنی جماعت کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ نا انصافی کی جا رہی ہے، فنڈز پی ٹی آئی ارکان کو دیے جا رہے ہیں، فنڈز کی تقسیم اور ان کا استعمال صرف دو تین لوگوں کے کہنے کے مطابق کیا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ کے پی اسمبلی میں بی اے پی کے چار قانون ساز ہیں، جن میں بلاول آفریدی بھی شامل ہیں، بلاول آفریدی اور دو دیگر ارکان عباس الرحمٰن اور شفیق آفریدی ضم شدہ اضلاع کے انتخابات کے دوران رکن صوبائی اسمبلی کے طور پر منتخب ہوگئے تھے تاہم انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کے بعد بی اے پی میں شمولیت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:بی اے پی کے ناراض اراکین کا وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ

بی اے پی کی رکن بصیرت خان خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہوئی تھیں۔

بی اے پی کا خیبر پختونخوا حکومت سے علیحدگی کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے جبکہ ووٹنگ سے قبل پاکستان تحریک انصاف اپنے اتحادیوں کی حمایت یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز میں وزیر اعظم عمران نے 2018 میں اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار پارلیمنٹ لاجز کا دورہ کیا تھا جہاں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں بشمول بلوچستان عوامی پارٹی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔

مذکورہ اجلاس کے دوران بی اے پی کے رہنماؤں نے متعدد امور پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم سے کہا تھا کہ وہ 'تصادم کی سیاست' کا راستہ نہ اپنائیں اور ساتھ ہی ساتھ 27 مارچ کو اپنی پارٹی کا پاور شو نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت چھوڑی نہ اپوزیشن جوائن کی ہے، پرویز الٰہی

بی اے پی کے رہنما خالد مگسی نے ملاقات کے بعد ڈان کو بتایا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم سے اپنے تحفظات اور مسائل پر بات کی ہے۔

خالد مگسی نے کہا تھا کہ ہم نے وزیر اعظم کو اپنے تحفظات اور مسائل پیش کیے ہیں، جن کا ہمیں گزشتہ ساڑھے تین برسوں کے دوران سامنا رہا تھا، ان پر زور دیا ہے کہ وہ 27 مارچ کو جلسہ عام میں نہ جائیں کیونکہ اس سے ملک میں خونی سیاست اور افراتفری پھیل سکتی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ وزیراعظم کو آگاہ کردیا ہے کہ پی ٹی آئی نے اس اہم وقت میں بھی بی اے پی کی حمایت نہیں کی جب بلوچستان میں پارٹی دو گروپوں میں تقسیم ہوئی اور نظر انداز صوبے کی ترقی کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

خالد مگسی نے کہا تھا کہ بی اے پی نے پی ٹی آئی کی زیر قیادت حکمران اتحاد کے ساتھ تین سال سے زیادہ عرصہ گزارا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اتحادیوں سے سوتن کے طور پر برتاؤ نہیں کرنا چاہیے، پرویز الہٰی

ان کا کہنا تھا کہ ’اب ہم اپوزیشن کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ بلوچستان کی بہتری کے لیے کیا آپشن دے گی'۔

بی اے پی رہنما نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ وہ سیاسی منظر نامے میں گجرات کے چوہدریوں (مسلم لیگ ق کے رہنماؤں) کے رویے کو بھی دیکھ رہے ہیں۔

خالد مگسی نے مزید کہا تھا کہ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور ہم جلد ہی اپنا فیصلہ کریں گے کہ آیا حکمران اتحاد پر قائم رہنا ہے یا اسے چھوڑنا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں