رحیم یار خان: اہلخانہ نے سب انسپکٹر کی خودکشی کا ذمے دار پولیس افسران کو قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2022
متوفی سب انسپکٹر کے نانا نے بتایا کہ میری روز نوکری سے چھٹی یا ٹرانسفر نہ ملنے کی وجہ سے افسردہ تھی— فائل فوٹو: اے پی
متوفی سب انسپکٹر کے نانا نے بتایا کہ میری روز نوکری سے چھٹی یا ٹرانسفر نہ ملنے کی وجہ سے افسردہ تھی— فائل فوٹو: اے پی

رحیم یار خان: سب انسپکٹر میری روز کی خودکشی کے 5 روز بعد ان کے اہل خانہ نے ضلع کے اعلیٰ پولیس افسران کے فعل کو ان کی بیٹی کی خودکشی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

جمعرات کو میری روز کے نانا ہدایت مسیح نے اپنے گھر پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری روز بہت افسردہ تھی کیونکہ اسے نوکری سے ٹرانسفر یا رخصت نہیں دی گئی۔

مزید پڑھیں: پروموشن میں تاخیر پر پولیس اہلکار کی خودکشی کی دھمکی

انہوں نے کہا کہ اس کی خودکشی کے دو پہلو تھے، پہلا ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے ان کی چھٹی منظور نہیں کی اور ساتھ ہی اس کا لاہور تبادلہ بھی کردیا گیا تھا، دوسری وجہ لاہور کی اسپیشل برانچ میں ملازم اس کا شوہر تھا جس نے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ نوکری چھوڑ کر لاہور آئے۔

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ میری روز نے گھریلو مسائل کی وجہ سے خودکشی کی لیکن ہدایت مسیح نے واضح کیا کہ میری روز اور ان کے شوہر سرور مسیح کے درمیان کسی قسم کے اختلافات نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ سرور مسیح صرف اپنے خاندان کے ساتھ خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے انہیں لاہور منتقل کرنا چاہتے تھے، میری روز نوکری سے استعفیٰ نہیں دینا چاہتی تھی اور ڈپریشن میں چلی گئی تھی جس کی وجہ سے اس نے خودکشی کی۔

نانا نے مزید بتایا کہ میری روز نے 8 مارچ کو چھٹی کے لیے درخواست جمع کرائی، جس دن خودکشی کی، اس نے وہ اپنی درخواست کے بارے میں پوچھنے کے لیے ڈی پی او کے پاس گئیں لیکن پولیس افسر نے پولیس کی نفری میں کمی کا بہانہ بنا کر انہیں چھٹی نہیں دی۔

یہ بھی پڑھیں: خودکشی سے متعلق ٹوئٹ کرنے پر پنجاب پولیس کو تنقید کا سامنا

ہدایت مسیح نے بتایا کہ ان کی نواسی نے پولیس افسر سے بحث نہیں کی اور ان کے ساتھیوں کے مطابق کپکپاتے ہاتھوں سے ڈی پی او کو سیلیوٹ کرنے کے بعد گھر واپس آگئی، میری نے کیڑے مار دوا کھا لی اور ان کی موت ہو گئی۔

میری روز کو یاد کرتے ہوئے ہدایت مسیح نے کہا کہ میری نواسی نے اپنے والدین یا خاندان کے دیگر افراد سے کبھی بھی اپنے محکمے کے امور اور ملازمت کے مسائل پر بات نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ میری روز کو اپنے شوہر کی پوسٹنگ والے شہر میں ٹرانسفر کا حق حاصل تھا اور اس نے 8 سال قبل شادی کے سبب ٹرانسفر کے لیے درخواست جمع کرائی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پالیسی کے مطابق شادی شدہ خواتین اسی شہر میں ٹرانسفر کرا سکتی ہیں جس شہر میں ان کے شوہر کی پوسٹنگ ہوتی ہے اور انہیں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ اب اس معاملے پر مزید کوئی کارروائی نہیں چاہتے۔

مزید پڑھیں: خودکشی کو جرم قرار دینے کے قانون کے خلاف سینیٹ میں بل منظور

میری روز کی والدہ نے بھی اپنے والد کے دعوؤں کو دہراتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی نے اپنے محکمے کے رویے اور ٹرانسفر کے معاملے کی وجہ سے خودکشی کی۔

سپرنٹنڈنٹ آف پولیس انویسٹی گیشن دوست محمد نے کہا کہ یہ ایک بدقسمت واقعہ ہے کیونکہ میری روز ایک بہادر اور فرض شناس تفتیشی افسر تھیں۔

تاہم انہوں نے ان کے اہلخانہ کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق خودکشی کی وجہ کچھ گھریلو مسائل ہیں، ان کا خودکشی کا نوٹ ان کے کمرے کے آئینے سے ملا ہے اور وہ مزید معلومات کے بارے میں تفتیش کے بعد بتائیں گے۔

دوست محمد نے مزید کہا کہ محکمہ پولیس میں نظم و ضبط ہے اور چھٹی کا کوئی بھی معاملہ ڈی پی او کے کمرے میں رکھا جاتا تھا جبکہ عام حالات میں چھٹی کی درخواست مسترد ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا البتہ ضلع میں امن و امان کی خراب صورتحال جیسے مخصوص حالات کے پیش نظر معاملے کو روکا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چکوال: 'دفتری مسائل' کے باعث اے ایس آئی کی خودکشی

ایس پی نے دعویٰ کیا کہ اپنی خودکشی سے ایک دن پہلے روز چیک لینے ان کے دفتر آئی تھی اور وہ بہت پرسکون تھی۔

پولیس کے ترجمان سیف علی نے ڈان کو بتایا کہ متوفی نے حالیہ دنوں میں کسی چھٹی یا شادی کے لیے درخواست نہیں دی تھی البتہ وہ گزرے برسوں میں اس سلسلے میں دی گئی درخواستوں کے بارے میں نہیں جانتے لہٰذا میری روز کی چھٹی یا ٹرانسفر کے معاملے کو ان کی خودکشی سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں