بھارت کی روس سے تیل کی خریداری پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں، امریکا

18 مارچ 2022
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے زور دیا کہ تمام ممالک روس پر عائد پابندیوں کی پیروی کریں—فائل فوٹو: رائٹرز
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے زور دیا کہ تمام ممالک روس پر عائد پابندیوں کی پیروی کریں—فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اگر بھارت روس سے رعایتی تیل خریدتا ہے تو یہ روس پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں ہے لیکن ایسا کرنا نئی دہلی کو تاریخ کے غلط رخ پر ڈال دے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک تازہ ترین نیوز بریفنگ میں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے زور دیا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تمام ممالک ان پابندیوں کی پیروی کریں جو امریکا نے 24 فروری کے بعد روس پر لگائی اور تجویز کی ہیں۔

لیکن جب ان سے بھارت کی روس سے رعایتی تیل کی خریداری پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سے ان پابندیوں کی خلاف ورزی ہو گی، تاہم انہوں نے بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ اس بارے میں سوچے کہ وہ یوکرین کے معاملے پر کہاں کھڑا ہونا چاہتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسے وقت میں جب تاریخ لکھی جائے گی تو روس اور روسی قیادت کی حمایت، ایک حملے کی حمایت کے مترادف ہوگی جو یقیناً تباہ کن اثرات مرتب کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور برطانیہ نے روس سے تیل کی درآمدات پر پابندی عائد کردی

بھارتی میڈیا کی خبر کے مطابق ملک کی سب سے بڑی آئل فرم انڈین آئل کارپوریشن نے (روس سے) 30 لاکھ بیرل خام تیل خریدا ہے جسے روس نے مروجہ بین الاقوامی نرخوں پر بھاری رعایت کے ساتھ فراہم کیا۔

بھارتی میڈیا نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ایک تاجر کے ذریعے یہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پہلی خریداری ہے۔

بھارت دنیا میں تیسرا سب سے بڑا تیل کا صارف اور درآمد کنندہ ہے اور اپنی ضروریات کا 80 فیصد درآمدات سے پورا کرتا ہے لیکن ان خریداریوں میں سے صرف 2 سے 3 فیصد روس سے آتی ہیں۔

روس سے بھارت کی مبینہ خریداری پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی میڈیا آؤٹ لیٹس نے نوٹ کیا کہ بھارت نے ابھی تک روس کی مذمت نہیں کی ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ووٹنگ سے بھی پرہیز کیا ہے جس میں اس حملے کی مذمت کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: روس پر پابندیوں میں شامل نہیں ہوں گے، چین

24 فروری کے بعد سے کئی امریکی عہدیداروں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ خود کو روس سے دور رکھے، تاہم انہوں نے بھارت کے روس بہت زیادہ انحصار کو بھی تسلیم کیا۔

روس، بھارت کو ہتھیاروں کا سب سے بڑا فراہم کنندہ ہے جس میں میزائل اور لڑاکا طیاروں کے لیے چھوٹے ہتھیار اور گولہ بارود شامل ہیں۔

ماسکو میں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ ہفتے روس کے نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک نے بھارت کے مرکزی وزیر برائے پیٹرولیم ہردیپ پوری کو فون کیا اور ان کے ساتھ ایندھن اور توانائی کے موجودہ اور ممکنہ منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا۔

الیگزینڈر نوواک نے کہا کہ روس، بھارت کی روسی تیل کے شعبے میں سرمایہ کاری اور بھارت کو تیل اور پیٹرولیم کی برآمدات بڑھانے کا خواہاں ہے۔

فنانشل ٹائمز نے منگل کو رپورٹ کیا کہ ماسکو کو معاشی طور پر تنہا کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود پاکستان بھی روس کی تعمیر کردہ گیس پائپ لائن کو حتمی شکل دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین حملہ: امریکا، یورپی یونین سمیت متعدد ممالک کی روس پر سخت پابندیاں

رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ پاکستان امریکا کا اتحادی ہے لیکن وہ توانائی کے بحران کو کم کرنے کے لیے متبادل ایندھن کے ذرائع تلاش کرنے پر مجبور ہے۔

فنانشل ٹائمز نے نوٹ کیا کہ اسلام آباد حالیہ برسوں میں ماسکو کے قریب تر ہو گیا ہے، حکام جزوی طور پر توانائی کے تحفظ کو بڑھانے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات کو خطرے میں ڈالنا بہت مہنگا پڑے گا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان گیس پیدا کرنے والا ملک ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس نے خلیج سے درآمد بھی شروع کر دی ہے کیونکہ توانائی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں