افغانستان: لڑکیوں کے اسکولز کھلنے کے چند گھنٹے بعد ہی بند کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 23 مارچ 2022
طالبات نے آنسوؤں کے ساتھ اپنے بستے سمیٹے اور واپس لوٹ گئیں —فوٹو: اے ایف پی
طالبات نے آنسوؤں کے ساتھ اپنے بستے سمیٹے اور واپس لوٹ گئیں —فوٹو: اے ایف پی

افغانستان میں ایک عہدیدار نے طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول کھلنے کے چند گھنٹے بعد ہی دوبارہ بند کرنے کا حکم جاری ہونے کی تصدیق کی ہے جس سے طالبان حکومت کی پالیسیوں سے متعلق ابہام پیدا ہوگیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی جانب سے لڑکیوں کو واپس گھر بھیجے جانے کی تصدیق کے سوال پر طالبان ترجمان انعام اللہ سمنگانی نے تصدیق کرتے ہوئے جواب دیا کہ ’ہاں یہ سچ ہے‘۔

انہوں نے اس حکم کی فوری طور پر وضاحت نہیں کی جبکہ وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد ریان نے کہا کہ ہمیں اس پر تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

اے ایف پی کی ایک ٹیم دارالحکومت کابل کے زرغونا ہائی سکول میں فلم بندی کر رہی تھی جب ایک ٹیچر کلاس میں داخل ہوئیں اور کلاس ختم ہونے کا اعلان کیا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان کا لڑکیوں کو ہائی اسکول جانے کی اجازت دینے کا اعلان

گزشتہ سال اگست میں طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار اسکول آنے والی طالبات نے آنسوؤں کے ساتھ اپنے بستے سمیٹے اور واپس لوٹ گئیں۔

کابل مین موجود اومرا خان گرلز اسکول کی ٹیچر پلوشہ نے کہا کہ ’میں نے اپنی طالبات کو روتے ہوئے اور کلاس چھوڑنے سے گریزاں دیکھا، اپنے شاگردوں کو روتے ہوئے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ ہے‘۔

لڑکیوں کے ہائی اسکولز پر مہینوں سے عائد پابندیوں کے بعد وزارت تعلیم نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ بدھ کو (آج) ملک بھر میں لڑکیوں سمیت تمام طلبہ کے لیے اسکول کھل جائیں گے۔

گزشتہ روز شام کو وزارت تعلیم کے ترجمان نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں تمام طلبہ کو کلاس میں واپس آنے پر مبارکباد دی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: طالبان، لڑکیوں کو اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیں، ملالہ کی اپیل

تاہم ایک سرکاری خبر رساں ایجنسی ’باختر نیوز‘ کے مطابق آج وزارت تعلیم کے ایک نوٹس میں کہا گیا کہ لڑکیوں کے اسکول اس وقت تک بند رہیں گے جب تک کہ اسلامی قانون اور افغان ثقافت کے مطابق کوئی منصوبہ تیار نہیں کرلیا جاتا۔

نوٹس میں کہا گیا کہ ’ہم تمام گرلز ہائی اسکولز سمیت ان اسکولز کو اگلے حکم تک بند رکھنے کا حکم دیتے ہیں جن میں چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات زیر تعلیم ہیں‘۔

وزارت تعلیم کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے کے لیے کالز اور پیغامات کا جواب نہیں دیا، طالبان انتظامیہ کے ذرائع نے ’رائٹرز‘ کو بغیر کوئی تفصیل بتائے اس بات کی تصدیق کی کہ کابل میں لڑکیوں کے اسکول فی الحال بند کیے جارہے ہیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی سربراہ ڈیبورا لیونس نے اسکولز کی بندش کی اطلاعات کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’اگر یہ سچ ہے تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟‘

یہ بھی پڑھیں: یونیسیف کا افغان اساتذہ کو 2 ماہ کیلئے وظیفہ ادا کرنے کا اعلان

افغانستان میں امریکی مشن کے سربراہ ایان میک کیری، جو اس وقت قطر میں مقیم ہیں، نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ وہ ان اطلاعات سے بہت پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی مایوس کن ہے اور طالبان کی بہت سی یقین دہانیوں اور بیانات کے متضاد ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال اگست میں جب افغانستان میں طالبان نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت اسکولز کورونا کے سبب بند تھے، 2 ماہ بعد صرف لڑکوں اور کم عمر لڑکیوں کی کلاسز دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی گئی۔

یہ خدشہ موجود تھا کہ طالبان لڑکیوں کے لیے رسمی تعلیم کے سلسلے کو مکمل معطل کر دیں گے جیسا کہ انہوں نے 1996 سے 2001 تک اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران کیا تھا۔

مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان نے مارچ میں تمام لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کا عندیہ دے دیا

عالمی براداری نے افغانستان کی نئی حکومت تسلیم کرنے اور امدداد کے لیے تعلیم کے حق کو اہم شرط قرار دیا ہے، کئی ممالک اور تنظیموں کی جانب سے افغانستان میں اساتذہ کو تنخواہ دینے کی پیشکش بھی کی جارہی ہے۔

آج لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں میں تعلیمی سلسلہ دوبارہ بحال ہونے پر خصوصی نظر رکھی جارہی تھی، جبکہ رپورٹس کے مطابق طالبان کے روحانی مرکز قندھار سمیت ملک کے کچھ دیگر حصوں میں کلاسز اگلے ماہ شروع ہوں گی۔

تاہم دارالحکومت کابل اور ہیرات اور پنجشیر میں کئی اسکولز عارضی طور پر ضرور کھل گئے ہیں۔

ہیرات میں گوہرشاد بیگم ہائی اسکول کی پرنسپل لطیفہ ہمدرد نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’وہ تمام طلبہ جنہیں ہم آج دیکھ رہے ہیں بہت خوش ہیں اور وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ یہاں موجود ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانے کی اجازت کا جلد اعلان کریں گے، یونیسیف

تاہم طالبان نے خواتین پر بہت سی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، ان پر بہت سی سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کیے جاچکے ہیں، ان کے لباس پر بھی پابندیاں عائد ہیں اور انہیں اپنے شہروں سے باہر تنہا سفر کرنے سے روکا جارہا ہے۔

اس صورتحال میں اگر اسکولز مکمل طور پر دوبارہ کھل بھی جاتے ہیں تب بھی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے واپسی میں رکاوٹیں باقی رہیں گی، بہت سے خاندان طالبان کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں اور اپنی بیٹیوں کو باہر جانے کی اجازت دینے سے گریزاں ہیں، جبکہ کئی لوگوں کو لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔

قندھار میں اسکول چھوڑنے کا فیصلہ کرنے والی 20 سالہ حیلا حیا کا کہنا ہے کہ جن لڑکیوں نے تعلیم مکمل کرلی ہے وہ اب گھر بیٹھی ہیں اور ان کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں