روس کا شہریوں کے انخلا کیلئے یوکرین میں جزوی جنگ بندی کا اعلان

اپ ڈیٹ 05 مارچ 2022
اعلان میں کہا گیا ہے کہ انخلا کا عمل کئی دنوں تک جاری رہے گا — فوٹو: اے ایف پی
اعلان میں کہا گیا ہے کہ انخلا کا عمل کئی دنوں تک جاری رہے گا — فوٹو: اے ایف پی

روس کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ روس نے یوکرین کے شہر ماریوپول اور وولنوواخا سے انسانی بنیادوں پر راہداریاں کھولنے کی اجازت دینے کے لیے جزوی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔

روسی خبر رساں ایجنسیوں نے روسی وزارت دفاع کے حوالے سے بتایا کہ روس نے جنگ بندی کی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر راہداری کھولنے کا اعلان کیا تاکہ شہریوں کو ماریوپول اور وولنوواخا سے نکلنے کی اجازت دی جا سکے۔

سٹی ہال نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بحیرہ ازوف پر واقع تقریباً ساڑھے 4 لاکھ افراد پر مشتمل جنوبی شہر ماریوپول میں مقامی وقت کے مطابق 9 بجے انخلا شروع کر دیا جائے گا، شہر سے نجی ٹرانسپورٹ کے ذریعے بےدخلی ممکن ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: روس-یوکرین جنگ کے نتائج پر امریکا نے پاکستان کو خبردار کردیا

اعلان میں کہا گیا کہ شہر چھوڑنے والے تمام ڈرائیوروں سے ایک بہت بڑی درخواست ہے کہ شہری آبادی کے انخلا میں زیادہ سے زیادہ تعاون کریں، لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائیں، جہاں تک ممکن ہو گاڑیاں بھر لیں۔

اعلان میں کہا گیا ہے کہ انخلا کا عمل کئی دنوں تک جاری رہے گا تاکہ پوری شہری آبادی کو شہر سے باہر جانے کا موقع ملے۔

بیان میں شہر کے حکام نے نجی گاڑیوں میں جانے والے رہائشیوں کو بتایا کہ انخلا کے راستوں سے ہٹ کر سفر کرنا سختی سے ممنوع ہے۔

مزید پڑھیں: روس یوکرین جنگ: ’یہ تنازع اور امن میں انتخاب کا وقت ہے‘

پیغام میں کہا گیا کہ میونسپل بسیں بھی شہر کے 3 مقامات سے لوگوں کو نکلنے میں مدد کے لیے روانہ ہو رہی ہیں۔

یوکرین کی نائب وزیر اعظم ارینا ویریشچک نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ شہر سے تقریباً 2 لاکھ افراد کو نکالے جانے کی امید ہے۔

انہوں نے لکھا کہ مزید 15 ہزار افراد کو وولنوواخا سے لایا جائے گا جو کہ 20 ہزار افراد پر مشتمل ایک قصبہ ہے جو علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول ڈونیٹسک سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک علاقائی مرکز ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین پر حملے کے بعد روس پر پابندیاں کتنی اہمیت کی حامل؟

بیان میں میئر وادیم بویچینکو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں ہے، لیکن جیسا کہ میں نے ہمیشہ کہا ہے ماریوپول اس شہر کی گلیاں یا گھر نہیں اس کی آبادی کا نام ہے، یہ آپ اور میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ روسی افواج شہر کو گھیرے میں لے چکی ہیں، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ رہائشیوں کو یعنی آپ کو اور مجھے ماریوپول کو بحفاظت چھوڑنے کی اجازت دی جائے۔

روس نے فیس بک اور دیگر سائٹس کو بلاک کردیا

دریں اثنا روس نے فیس بک اور کچھ دیگر ویب سائٹس کو بلاک کر دیا اور ایک قانون منظور کیا جس کے تحت ماسکو کو صحافت کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے بہت زیادہ طاقت دی گئی، جس کے ذریعے بی بی سی، بلومبرگ اور دیگر غیر ملکی میڈیا کو ملک میں رپورٹنگ معطل کرنے پر مجبور کیا گیا۔

یوکرین میں آج دسویں روز بھی جنگ جاری رہی جب روسی فوجیوں نے شہروں کا محاصرہ کیا اور بمباری کی۔

لڑائی نے 10 لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں اور پابندیوں کے ایک سلسلے کو جنم دیا جو ماسکو کو تیزی سے تنہا کر رہا ہے، مغرب میں ایک وسیع عالمی تنازع کا خدشہ پیدا ہوا ہے جس کے بارے میں کئی دہائیوں سے سوچا بھی نہیں گیا۔

یہ بھی پڑھیں: روس کی مذاکرات پر رضامندی کے ساتھ یوکرین کے دوسرے بڑے شہر پر چڑھائی

ماسکو کا کہنا ہے کہ اس کا حملہ ان افراد کو پکڑنے کے لیے ایک ’خصوصی آپریشن‘ ہے جنہیں وہ خطرناک قوم پرست سمجھتا ہے، جبکہ اس نے شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کی۔

یوکرین کی خصوصی مواصلات اور معلومات کے تحفظ کی ریاستی سروس کا کہنا ہے کہ روسی افواج نے کریمیا تک زمینی راستہ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ یوکرین کے دوسرے بڑے شہر کیف اور خارکیف کو گھیرے میں لینے کی کوششوں پر توجہ مرکوز کی۔

یوکرین کے دارالحکومت کے باہر کئی دنوں سے رکے ہوئے ایک روسی بکتر بند قافلے کی راہ میں موجود کیف، شہر کے مرکز میں دھماکوں کی آوازوں کے ساتھ ایک نئے حملے کی زد میں آیا۔

مزید پڑھیں: 40 میل طویل روسی فوجی قافلے کی کیف کو دھمکی، گولہ باری میں شدت

یوکرین کے میڈیا آؤٹ لیٹ ’سسپائلن‘ نے کیف سے تقریباً 300 کلومیٹر مشرق میں واقع سومی میں موجود حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہر کی سڑکوں پر لڑائی کا خطرہ ہے اور رہائشیوں کو پناہ گاہوں میں رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔

روسی افواج نے جنوب مشرقی بندرگاہی شہر ماریوپول کو بھی گھیرے میں لے کر گولہ باری کی، شہر کے میئر ویدم بوئیچنکو کے مطابق پانی، گرمی یا بجلی نہیں ہے اور کھانا ختم ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم صرف تباہ ہو رہے ہیں۔

—فوٹو: اے ایف پی بیورو/انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار
—فوٹو: اے ایف پی بیورو/انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے اقدامات کی تقریباً عالمگیر سطح پر مذمت ہو رہی ہے اور بہت سے ممالک نے سخت پابندیاں عائد کی ہیں، جبکہ مغرب نے تنازع بڑھنے سے روکنے کے لیے سزا کو متوازن رکھا۔

دوبارہ انفارمیشن کی جنگ لڑتے ہوئے روس کی پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا جس میں فوج کے بارے میں جان بوجھ کر جعلی خبریں پھیلانے پر 15 سال تک قید کی سزا سنائی گئی۔

روس کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں ڈوما کے چیئرمین ویاچیسلاو وولودن نے کہا کہ یہ قانون ان لوگوں پر سزا اور بہت سخت سزا لاگو کرے گا جنہوں نے جھوٹ بولا اور ایسے بیانات دیے جس سے ہماری مسلح افواج کو بدنام کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: امید ہے پاکستان بھی روسی حملے کی مذمت میں ٹھوس مؤقف اختیار کرے گا، یوکرینی سفیر

ریاستی حمایت یافتہ چینلز کو محدود کرنے کے لیے روس فیس بک، بی بی سی، ڈوئچے ویلے اور وائس آف امریکا کی ویب سائٹس کو بلاک کر رہا ہے۔

سی این این اور سی بی ایس نیوز نے کہا کہ وہ روس میں نشریات بند کر دیں گے، دیگر آؤٹ لیٹس نے صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے روس میں مقیم صحافیوں کی بائی لائنز کو ہٹا دیا۔

مزید پابندیاں

توقع کی جارہی ہے کہ آج یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی، امریکی سینیٹ کے ساتھ زوم کال میں مزید مدد کے لیے واشنگٹن پر دباؤ ڈالیں گے۔

امریکا، روسی تیل کی درآمدات میں کٹوتیوں اور عالمی سپلائی اور صارفین پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے طریقوں پر غور کر رہا ہے، قانون ساز ایک ایسے بل پر فوری کام کر رہے ہیں جو روس کی توانائی کی درآمدات پر پابندی لگائے گا۔

سپلائی کی قلت کے خدشے پر رواں ہفتے تیل کی عالمی قیمتوں میں 20 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا، جس سے عالمی اقتصادی ترقی کو خطرہ لاحق ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روس پر پابندیوں میں شامل نہیں ہوں گے، چین

گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں نیٹو کے اتحادیوں نے یوکرین کی جانب سے 'نو فلائی زونز' کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ حمایت میں اضافہ کر رہے ہیں لیکن اس معاملے میں براہ راست قدم رکھنے سے صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس جنگ کو یوکرین سے آگے بڑھنے سے روکیں کیونکہ یہ مزید خطرناک، تباہ کن اور انسانی تکالیف کا باعث بنے گی۔

ولودیمیر زیلنسکی نے سربراہی اجلاس کو ’کمزور‘ اور ’تذبذب کا شکار‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ واضح ہےکہ ہر کوئی یورپ کی آزادی کی جنگ کو نمبر ایک مقصد نہیں سمجھتا۔

مزید پڑھیں: یوکرین حملہ: امریکا، یورپی یونین سمیت متعدد ممالک کی روس پر سخت پابندیاں

آئرش وزیر خارجہ سائمن کوونی نے کہا کہ یورپی یونین کی جانب سے مزید پابندیاں آنے والی ہیں، اس میں ممکنہ طور پر یورپی بندرگاہوں پر روسی پرچم والے جہازوں پر پابندی اور اسٹیل، لکڑی، ایلومینیم یا کوئلے کی درآمدات کو روکنا شامل ہوسکتا ہے۔

طاس نیوز ایجنسی کے مطابق روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کو بتایا کہ یوکرین کے ساتھ تنازع کو پرامن طریقے سے ختم کرنے کے لیے بات چیت نقطہ آغاز سے آگے نہیں بڑھی۔

— فوٹو: اے پی
— فوٹو: اے پی

انسانی بحران

مغربی یوکرین اور پڑوسی ممالک میں 10 لاکھ سے زائد پناہ کے متلاشی افراد کی صورت میں ایک انسانی تباہی نمودار ہوتی نظر آرہی ہے۔

گزشتہ روز پولینڈ جانے والی ٹرینوں میں سوار ہونے کے لیے ہزاروں لوگ مغربی شہر لویف کے ریلوے اسٹیشن کے باہر گھنٹوں انتظار کرتے رہے، اہل خانہ کچھ سامان لے کر پہنچے، کچھ وہیل چیئرز پر تھے، کچھ پالتو کتے اور بلیوں کے ساتھ تھے اور اپنی قسمت کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کا شکار نظر آرہے تھے۔

یانا ٹیبیاکینہ نے کہا کہ ہم اپنے ساتھ صرف بنیادی ضروریات کی چیزیں لے کر آئے، چند کپڑے اور بس یہی ہے، باقی سب ہم نے پیچھے چھوڑ دیا، ہماری ساری زندگی ہم گھر چھوڑ آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا روس کے 5 بینکوں اور 3 امیر ترین افراد پر پابندیاں لگانے کا اعلان

ماریوپول سے تقریباً 230 کلومیٹر مغرب میں یورپ کے سب سے بڑے زیپوریزہزیا نیوکلیئر پاور پلانٹ پر کل ہونے والے حملے نے تنازع کو ایک خطرناک موڑ تک پہنچا دیا، لیکن بعد میں حکام نے پلانٹ محفوظ ہونے کی اطلاع دی۔

اقوام متحدہ میں ماسکو کے سفیر نے کہا کہ پلانٹ اور ملحقہ علاقے کی حفاظت اب روسی فوجی کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ دنیا جوہری تباہی سے بہت قریب سے بچی ہے۔

مزید پڑھیں: 'کسی بلاک کا حصہ نہیں بنیں گے، روس-یوکرین تنازع کے پرامن حل کے خواہاں ہیں'

انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے دوران کہا کہ یہ حملہ روس کی جانب سے حملوں میں ایک خطرناک نئے اضافے کی عکاسی کرتا ہے، انہوں نے ماسکو سے اس یقین دہانی کا مطالبہ کیا کہ ایسا حملہ دوبارہ نہیں ہوگا۔

روسی افواج نے جنوب میں اپنی سب سے بڑی پیش قدمی کی ہے، جہاں انہوں نے رواں ہفتے پہلے بڑے یوکرینی شہر، خرسون پر قبضہ کر لیا، شمال مشرقی شہروں خارکیف اور چرنی ہیو میں حالیہ دنوں میں بمباری میں شدت آئی ہے۔

یوکرین کے صدارتی مشیر اولیکسی آریسٹووچ نے کہا کہ جنوبی بندرگاہ میکولائیف پر پیش قدمی روک دی گئی ہے، اگر قبضہ کر لیا گیا تو یہ 5 لاکھ آبادی کا شہر اب تک قابض ہونے والا سب سے بڑا شہر ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں