پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے وزیراعظم پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف عمران خان کی انا کی وجہ پاکستان کی قسمت کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کیا لیکن اس میں انہوں نے ملک کے ایک لیڈر کی حیثیت سے جو فرائض ہوتے ہیں، ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو وزیراعظم نے کیا۔

مزید پڑھیں: ’دھمکی آمیز خط‘ ایک وزیر نے خود کسی سفیر سے لکھوایا، بلاول بھٹو کا دعویٰ

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں معاشی بحران ہے جو بدتر ہوتا جارہا ہے، معاشرے میں افراتفری شاید ایک تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہے، کوئی علاقہ یا کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں اس کے اثرات نہ پڑے ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک اور عوام کے مفاد کی نظر سے اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی دیکھیں تو پاکستان جس سطح پر دنیا بھر میں تنہا ہوگیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان مشکل حالات میں ہم سب پر فرض ہے کہ ہم ان حالات کو سنبھالیں اور پاکستان کو اس بحران سے نکالیں اور مزید بحران پیدا نہ کریں، آئینی بحران پیدا نہ کریں، تصادم کا خطرات پیدا نہ کریں، جو قانونی، آئینی اور جمہوری طریقہ کار ہے وہ اپنایا جائے۔

'خط کا شوشا ملک کوٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی کوشش ہے'

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی جو حکمت عملی ہے وہ ایسے ہے جیسے ایک کرکٹ کا کھلاڑی گیم تو ہار چکا ہے، نتائج صاف نظر آرہے ہیں لیکن وہ پچ پر لیٹ کر رو رہا ہے کہ میں ہار نہیں مانوں گا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر اپنی ہار نہیں مان رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے وہ نہیں ہار چکا ہے اور جاتے جاتے جس طریقے اور انداز سے یہ وزیراعظم ہماری خارجہ پالیسی، ہماری معیشت اور ہمارے اداروں پر حملہ آور ہے، وہ آپ سب کے سامنے ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جو خط کا شوشا ہے، وہ ایک کوشش ہے کہ پاکستان کے عوام کو ایک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جائے، یہ ٹرک کی بتی کافی خطرناک ہے، وہ چاہتا ہے کہ جھوٹ کی بنیاد پر عوام کو ورغلائیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر کوئی عام آدمی سڑک پر یہ کام کر رہا ہوں تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا مگر وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے جب یہ کام کیا جاتا ہے تو پورا ملک کا نقصان ہوتا ہے، اس وزیراعظم نے عام سفارتی عمل کو متنازع بنایا ہے۔

'عدم اعتماد کی پیش کش 23 فروری سے پہلے کی تھی'

انہوں نے کہا کہ ہم پوچھتے ہیں کہ خان صاحب 23 فروری کو روس پہنچتا ہے تو کیا 23 فروری سے پہلے یہ پیش کش کرنے کے لیے ہم شہباز شریف کے گھر گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے جنوری میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سی ای سی رکھی گئی تھی جہاں ہمارے عوامی مارچ اور عدم اعتماد کے فیصلے کیے گئے تھے۔

'عمران خان کو جھوٹ بولنے کی بڑی عادت ہے'

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ اس سے پہلے تین سال سے ملک گواہ ہے کہ ہم کس طریقے سے اس سیاسی جدوجہد میں شریک ہیں، تو کیا ہمیں پہلے سے پتہ تھا کہ آپ نے روس جانا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کیا ہمیں پہلے سے پتہ تھا کہ روس نے جنگ کرنا ہے، کیا ہمیں پہلے سے پتہ تھا کہ یہ عالمی سازش بن رہی تھی، خان صاحب کو جھوٹ بولنے کی بڑی عادت ہے، جھوٹ کہنا ہے تو اتنا ہی بولو جو لوگ سچ مان سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی حکومت کیخلاف ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی سے معاہدہ، دیرینہ مطالبات منظور

وزیراعظم عمران خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے جھوٹ کا کوئی سر اور پیر نہیں ہے، یہ پہلے کہتا تھا اپوزیشن نے مجھے بڑا تحفہ دے دیا کہ عدم اعتماد لے کر آرہے ہیں اور پھر اچانک کہنا شروع کیا کہ عالمی سازش ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب فیصلہ انہوں نے خود کرنا ہے کہ آیا یہ ہمارا تحفہ ہے یا عالمی سازش ہے، حقائق یہ ہیں کہ ہم ایک سیاسی قدم کے نتیجے میں ہم عدم اعتماد پر پہنچے ہیں۔

'عدم اعتماد کا خیرمقدم کرنا چاہیئں'

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے، اس لیے ہم سب کو اس کو خوش آمدید کہنا چاہیے اور یقینی بنانا چاہیے کہ ہماری تحریک عدم اعتماد پرامن اور مناسب طریقے سے ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں وزرائے اعظم کو ہٹانے کے لیے جتنے بھی طریقے اپنائے گئے ہیں وہ غیرقانونی، غیرآئینی اور کم ازکم غیرجمہوری طریقے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ واحد جمہوری، آئینی اور پارلیمانی طریقہ کار ہے، جس کو متنازع نہ بنایا جائے، پاکستان کی قسمت کے ساتھ نہ کھیلا جائے، وزیراعظم صاحب محفوظ اور بیک ڈور راستہ ڈھونڈنے کے بجائے، اگر میں نہیں کھیلوں گا تو کسی اور بھی کھیلنے نہیں دوں گا کی دھمکیاں دینے کے بجائے، باعزت طریقے سے اس عمل کا مقابلہ کریں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آپ کے جھوٹ کے جواب ہم ہر دن دے سکتے ہیں، اس عمل کی ہم عزت کرتے ہیں کیونکہ ہم جمہوری لوگ ہیں، آپ کا اور ہمارا اختلاف اور اعتراض اس بات پر ہے کہ آپ ایک سلیکشن کے نتیجے میں اس قوم پر مسلط کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ اس سلیکشن کی وجہ سے ملک کے سارے کے سارے ادارے متنازع ہوئے، اس کی وجہ سے معاشی اور خارجہ پالیسیاں اپنائی گئیں وہ آپ کی تھیں، جو پارلیمان کی اتفاق رائے کے بغیر تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے ہم آج اس دو راہے پر کھڑے ہیں، جب ہماری تحریک عدم اعمتاد کامیابی ہوتی ہے اور آپ سلیکٹڈ وزیراعظم نہیں رہتے ہیں تو میرا اور آپ کا جھگڑا ختم ہے لیکن جب تک آپ ایک غیرجمہوری کردار ادا کر رہے ہیں تو پی پی پی اور غیرجمہوری قوتوں کے درمیان جنگ تو رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی ساری سیاسی جماعتوں، ملک کے سارے اداروں، ہمارے اسپیکر سے میری اپیل ہے کہ اب وقت آگیا ہے سب ہوش کے ناخن لیں۔

'جمہوریت کی بحالی کی طرف بڑھ رہے ہیں'

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم سب کے لیے اور ملک کے ایک موقع ہے کہ جمہوریت کی بحالی کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں، ہر کوئی سمجھتا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بعد جلد از جلد انتخابات ہونے چاہیں۔

مزید پڑھیں: ڈپٹی اسپیکر نے پارلیمنٹ میں اراکین کی آواز کو پھر دبا دیا، شہباز شریف

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم وہ 2018 کا داغ دھونا چاہ رہے ہیں، اگر ہم سیاسی، معاشی استحکام اور خارجہ پالیسی میں پائیداری لانے چاہتے ہیں تو تحریک عدم اعتمادکامیاب ہو، انتخابی اصلاحات ہوں، صاف و شفاف انتخابات ہوں، نئے مینڈیٹ کے ساتھ عوامی حکومت منتخب ہو،

انہوں نے کہا کہ جو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، وہ حکومت مینڈیٹ کے ساتھ ان مسائل کو حل کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس جمہوری طریقہ کار میں گڑ بڑ ہوتا، اگر ہمارے آئینی اور جمہوری عمل میں اس وقت آئین یا قانون کی خلاف ورزی یا ایسا کوئی غیرجمہوری کام ہوجاتا ہے تو خطرہ ہے پاکستان کے اگلے 20 سال اسی متنازع طریقے سے گزریں گے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا ہے لیکن صرف ایک عمران خان کی انا اور رونےدھونے کی وجہ سے ہم پاکستان کی قسمت کو اس خطرے میں نہیں ڈال سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم عمران خان کا ہر الزام، ہر جھوٹ اور ہر الزام کا جواب دینا جانتے ہیں، یہ ایک موقع ہے، اس موقعے کا فائدہ پورے ملک اور قوم کو اٹھانا چاہیے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اتوار کو ووٹنگ ہے اور اس وقت تک ہم امید رکھتے ہیں کہ کوئی غیرجمہوری قدم نہیں اپنایا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں