سپریم کورٹ: تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ روکنے کیلئے درخواست اعتراض لگا کر واپس

اپ ڈیٹ 02 اپريل 2022
سپریم کورٹ میں ایک درخواست سابق اٹارنی جنرل انور منصور اور ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے دائرکی گئی — فائل فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ میں ایک درخواست سابق اٹارنی جنرل انور منصور اور ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے دائرکی گئی — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ میں ’دھمکی آمیز خط‘ کی تحقیقات تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رکوانے اور میموگیٹ طرز پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کے حوالے سے دائر درخواست رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس کردی۔

رجسٹرار آفس کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا کہ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمان کی کاروائی چیلنج نہیں ہو سکتی۔

درخواست اعتراضات لگا کر واپس کیے جانے کے بعد درخواست میں فریق اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کے اعتراض پر اپیل دائر کر رہے ہیں، یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ میموگیٹ میں عدالت پہلے کمیشن تشکیل دے چکی ہے، یہ پارلیمنٹ کے اندر کی نہیں ووٹ ڈالنے سے باہر کی کاروائی ہے۔

قبل ازیں سپریم کورٹ میں ’دھمکی آمیز خط‘ کی تحقیقات تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ روکنے کے لیے متعدد درخواستیں دائر کردی گئیں جن میں عدالتی کمیشن بناکر میموگیٹ کی طرز پر خط کی تحقیقات کروانے کی استدعا کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ میں ایک درخواست سابق اٹارنی جنرل انور منصور اور ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے نعیم الحسن ایڈووکیٹ نے دائر کی۔

دھمکی آمیز خط سے متعلق سپریم کورٹ میں یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائرکی گئی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایک بین الاقوامی سازش ہے، لہٰذا تحریک عدم اعتماد پر کارروائی روکی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کےخلاف ’دھمکی آمیز خط‘ کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ وزیر اعظم کے خلاف سازش کرنے والے غداری کے زمرے میں آتے ہیں، مختلف ٹی وی اینکرز نے تحریک عدم اعتماد کا پہلے ہی بتا دیا تھا، لندن میں نواز شریف سے خفیہ ملاقاتیں ہوئیں جہاں سازش تیار کی گئی۔

درخواست گزار نعیم الحسن ایڈووکیٹ نے تحریک عدم اعتماد کی کارروائی روکنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ میموگیٹ طرز پر تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے، سپریم کورٹ کے 3 ججز پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے اور روزانہ کی بنیاد پر اس پر سماعت کی جائے۔

درخواست گزار نے استدعا کی کہ تحقیقات تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ روکنے کا حکم دیا جائے، یہ حساس اور ہنگامی نوعیت کا معاملہ ہے لہٰذا آج ہی سماعت کی جائے۔

درخواست میں وفاقی حکومت، وزیراعظم آفس، وزارت خارجہ، وزارت داخلہ، وزارت قانون اور وزارت دفاع کو فریق بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی، باہر سے حکومت بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے، وزیر اعظم

اسپیکر قومی اسمبلی، الیکشن کمیشن، ایف آئی اے، پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور ایم کیو ایم بھی درخواست میں فریق ہیں۔

معاملے کے حوالے سے دوسری درخواست خاتون درخواست گزار عذرا درانی کی جانب سے دائر کی گئی۔

درخواست میں تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دیتے ہوئے عدالت سے تحریک عدم اعتماد کو روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔

اس سے قبل ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے سپریم کورٹ سے تحقیقات کے لیے درخواست دائر کی تھی جسے آج سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا ہے۔

درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دکھائے گئے خط کی تحقیقات کا حکم دیا جائے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مبینہ دھمکی آمیز خط اتنہائی حساس اور سنجیدہ معاملہ ہے، عوام کو ذہنی تناؤ سے نکالنے کے لیے فوری مداخلت کی ضرورت ہے، دھمکی آمیز خط متعلقہ سول اور فوجی قیادت کو بھجوا کر تحقیقات کروائی جائیں۔

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد سے متعلق اپوزیشن پر الزام عائد کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک ’خط‘ نکال کر کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے، وزیراعظم نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں