ڈیڈ لاک ختم کرنے کیلئے 3 آپشنز عمران خان نے نہیں فوج نے دیے، شیریں مزاری

اپ ڈیٹ 15 اپريل 2022
شیریں مزاری نے وزیراعظم کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو آپشن دینے کے تاثر کی تردید کردی— فائل فوٹو: اے ایف پی
شیریں مزاری نے وزیراعظم کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو آپشن دینے کے تاثر کی تردید کردی— فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ڈیڈلاک ختم کرنے کے لیے فوج سے مدد نہیں مانگی تھی اور 3 آپشنز وزیر اعظم عمران خان نے نہیں بلکہ فوج نے دیے تھے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں شیریں مزاری نے کہا کہ ‘میں واضح کردوں، ریکارڈ پر کہہ رہی ہوں وزیراعظم نے ڈیڈلاک پر بریک تھرو پر مدد کے لیے فوج کو نہیں بلایا’۔

مزید پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ نے مجھے استعفیٰ سمیت تین آپشنز دیے، وزیراعظم عمران خان

انہوں نے کہا کہ ‘فوج نے اس وقت کے وزیردفاع پرویز خٹک کے ذریعے ملاقات کا وقت مانگا اور وزیراعظم کے استعفے، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں حصہ لینے یا نئے انتخابات کی تین تجاویز پیش کیں’۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ‘عمران خان استعفے کا آپشن کیوں دیتے جب وہ پہلے واضح اور مسلسل کہتے رہے تھے کہ وہ استعفیٰ کبھی نہیں دیں گے، اس کی سمجھ نہیں آتی’۔

انہوں نے تاثر کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کو بھی حکومت تبدیل کرنے کی بیرونی سازش قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا، تو وہ یہ تجاویز کیوں دیتے’۔

خیال رہے کہ شیریں مزاری کی جانب سے یہ بیان پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کی جانب سے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں دیے گئے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان کو 3 آپشن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نہیں رکھے گئے تھے۔

میجر جنرل بابرافتخار نے ایک سوال پر کہا تھا کہ وہ آپشنز اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نہیں رکھے گئے تھے، وزیر اعظم آفس کی جانب سے چیف آف آرمی اسٹاف کو اپروچ کیا گیا تھا کہ اس ڈیڈ لاک میں کوئی بیچ بچاؤ کی بات کریں۔

یہ بھی پڑھیں: ایک طاقتور ملک نے ناراض ہوکر ہمیں کہا کہ آپ روس کیوں چلے گئے؟ وزیراعظم

ان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت اس وقت آپس میں بات کرنے پر تیار نہ تھی تو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم آفس گئے اور وہیں پر یہ تین آپشنز پر بات ہوئی کہ کیا کیا ہو سکتا ہے، ان میں سے ایک تحریک عدم اعتماد تھا، دوسرا وزیراعظم کا استعفیٰ تھا اور تیسرا آپشن یہ تھا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے اور وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کی طرف چلے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم تیسرے آپشن کو اس وقت کی اپوزیشن پی ڈی ایم کے پاس لے گئے، ان کے سامنے یہ گزارش رکھی اور اس پر سیر حاصل بحث کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کا کوئی قدم اب نہیں اٹھائیں گے اور اپنے منصوبے پر عمل کریں گے لیکن کوئی آپشن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دیا گیا اور نہ رکھا گیا۔

اس سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان نے رواں ماہ کے شروع میں نجی ٹی وی اے آر وائی کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اسٹبلشمنٹ نے استعفیٰ سمیت تین آپشنز دیے تاہم قبل از وقت انتخابات بہتر آپشن ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے استعفے کے پیغام سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا تھا کہ 'مجھے اسٹبلشمنٹ نے پیش کش کی کہ تین چیزیں ہیں، یا آپ عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے چلے جائیں یا آپ استعفیٰ دیں یا پھر انتخابات کروائیں'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'ہم نے کہا انتخابات سب سے بہتر طریقہ ہے، استعفیٰ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا، عدم اعتماد ووٹ کا مطلب ہے کہ میرا ایمان ہے کہ آخری منٹ تک لڑوں گا اور اب بھی میرا یہی ایمان ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں