اسپیکر قومی اسمبلی کا پی ٹی آئی کے اجتماعی استعفوں کی تصدیق کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 21 اپريل 2022
ذرائع نے انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کے کم از کم 25 ایم این ایز نے راجا پرویز اشرف کو الگ سے خط لکھ کر ملاقات کی درخواست کی — فائل/فوٹو: ڈان
ذرائع نے انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کے کم از کم 25 ایم این ایز نے راجا پرویز اشرف کو الگ سے خط لکھ کر ملاقات کی درخواست کی — فائل/فوٹو: ڈان

قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 123 اراکین اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کا عمل آئندہ چند روز میں انفرادی طور پر یا چھوٹے گروپس میں بلا کر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق راجا پرویز اشرف کا یہ فیصلہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تقریباً 2 درجن ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے اپنا مؤقف واضح کرنے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کی درخواست کے بعد سامنے آیا۔

دوسری جانب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی (جو وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے پی ٹی آئی کی زیر قیادت اتحادی امیدوار تھے) نے پی ٹی آئی کے 26 ارکان صوبائی اسمبلی کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو ریفرنس بھیج دیا ہے، کیونکہ انہوں نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ

چوہدری پرویز الہٰی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ تحریک انصاف نے منحرف ارکان اور لوٹاکریسی کے خلاف قدم اٹھا کر جراتمندانہ اقدام کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کی نااہلی کے لیے بھیجے گئے ریفرنس کو جلد منطقی انجام تک پہنچائے۔

پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کا خیال ہے کہ 26 ارکان صوبائی اسمبلی کے نااہل ہونے کے اعلان سے متحدہ اپوزیشن کی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا مقابلہ کرنے کے لیے اکثریت چھن جائے گی۔

دونوں جماعتیں پی ٹی آئی کے مخالفین کو ای سی پی سے نااہل کروانے کی آخری کوشش کر رہی ہیں تاکہ مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا جا سکے اور صوبے کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر آسانی سے کامیابی حاصل کرنے کے لیے سادہ اکثریت کے ساتھ الیکشن لڑیں۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے 123 اراکین کے استعفے منظور کرلیے، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ذرائع نے تصدیق کی کہ پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے جمع کرائے گئے اکثر استعفے ہاتھ سے نہیں لکھے ہوئے تھے اور پی ٹی آئی کے لیٹر ہیڈ پر بھی ایک جیسا متن چھپا ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکریٹریٹ کے عملے کو بھی کچھ ارکان کے دستخط پر شک تھا کیونکہ یہ اسمبلی کے رول پر موجود دستخط سے میل نہیں کھا رہے تھے۔

ذرائع نے انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کے کم از کم 25 ایم این ایز نے راجا پرویز اشرف کو الگ سے خط لکھ کر ملاقات کی درخواست کی تھی تاکہ وہ وضاحت کر سکیں کہ کن حالات میں انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے نام سے کسی رکن کو اپوزیشن لیڈر نامزد نہ کیا جائے، عمران خان

اسمبلی سے بڑے پیمانے پر مستعفی ہونے کا فیصلہ عمران خان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کیا گیا تھا اور اس کا اعلان پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے 11 اپریل کو وزیر اعظم کے انتخاب سے چند منٹ قبل اسمبلی کے فلور پر کیا تھا۔

سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری (جو اس وقت قائم مقام اسپیکر کے طور پر کام کر رہے تھے) نے فوری طور پر استعفے منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو نوٹی فکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی۔

14 اپریل کو پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کے ذریعے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کا نوٹی فکیشن جاری کیا جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ پارٹی کے 123 ارکان قومی اسمبلی نے اسپیکر کو اپنی نشستوں سے استعفیٰ ہاتھ سے لکھ کر دے دیا۔

مزید پڑھیں: مراد سعید نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا

قومی اسمبلی کے سیکریٹری طاہر حسین کے دستخط شدہ نوٹی فکیشن میں اعلان کیا گیا تھا کہ استعفے جمع کرانے کے بعد ان کی نشستیں آئین کے آرٹیکل 64 (1) کے تحت خالی ہو گئی ہیں جس کا اطلاق 11 اپریل سے ہوگا، تاہم قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے حکام نے اس پیشرفت پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔

رابطہ کیے جانے پر قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ سیکریٹری کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کو روک دیا گیا تھا کیونکہ یہ متنازع انداز میں جاری کیا گیا تھا۔

مزید برآں انہوں نے کہا کہ نومنتخب اسپیکر نے پہلے ہی استعفوں کو ڈی سیل کرنے کا حکم دے دیا تھا اس لیے سابقہ نوٹی فکیشن سے متعلق یہی سمجھا جائے کہ یہ کبھی جاری نہیں ہوا۔

عہدیدار نے واضح کیا کہ چونکہ نوٹی فکیشن ای سی پی کو ارسال نہیں کیا گیا اس لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اسے سیکریٹریٹ کا اندرونی معاملہ سمجھا جانا چاہیے۔

واضح رہے کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف کی صورت میں رکن پارلیمنٹ کی نااہلی کا معاملہ سپریم کورٹ میں تاحال زیر بحث ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں