سری لنکا: وزیر اعظم کے سامنے آنے پر عوام کا شدید ردعمل

08 مئ 2022
لوگوں نے وزیر اعظم کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ ’چوروں‘ کو مقدس شہر میں داخل ہونے سے روکا جائے —فوٹو: اے ایف پی
لوگوں نے وزیر اعظم کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ ’چوروں‘ کو مقدس شہر میں داخل ہونے سے روکا جائے —فوٹو: اے ایف پی

سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجاپکسے کو اس وقت بوکھلاہٹ کا سامنا کرنا پڑا جب ملک میں سنگین معاشی بدحالی پر عوام کے احتجاج اور ان کے حکمراں خاندان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ سامنے آنے کے بعد وہ پہلی عوامی سطح پر سامنے آئے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق جنوبی ایشیا کے اس ملک میں مہینوں سے بلیک آؤٹ، خوراک، ایندھن اور ادویات کی شدید قلت نے بڑے پیمانے پر مسائل کو جنم دیا ہے، جس کی وجہ سے ملک اب تک کی اپنی بدتر معاشی بدحالی کا شکار ہے۔

مزید پڑھیں: سری لنکا: اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی

اتوار کی روز سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجاپکسے کے بھائی و وزیر اعظم مہندا راجاپکسے کو انورادھاپورا میں بدھ مت کے مقدس مندروں میں سے ایک کا دورہ کرتے ہوئے دیکھا گیا، جو 23 صدی پرانے ایک درخت کا گھر مانا جاتا ہے۔

کولمبو سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم مقدس شہر میں جب وزیر اعظم پہنچے تو سیکڑوں مرد اور خواتین ہاتھوں سے لکھے گئے پلے کارڈز اپنے ساتھ لائے اور وزیر اعظم کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ ’چوروں‘ کو مقدس شہر میں داخل ہونے سے روکا جائے۔

مظاہرین میں موجود ایک آدمی نے نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’ہم آپ کی عبادت کریں گے اگر آپ بطور وزیر اعظم عہدہ چھوڑ دیں اور چلے جائیں‘۔

وزیر اعظم کے دورے کے وقت اسپیشل ٹاسک فورس (ایس ٹی ایف) کے کمانڈوز کی بھاری تعداد وہاں تعینات کردی گئی تھی جبکہ پولیس کی بھاری نفری وزیر اعظم کی چھ گاڑیوں کے قافلے کو راستہ دینے کے لیے پہنچی ہوئی تھی۔

ملک میں کھانا پکانے کے لیے گیس کی قلت، ایندھن کی کمی اور ڈیزل کی عدم موجودگی کے خلاف عوام نے ملک کی اہم سڑکوں کو احتجاج کرکے بند کردیا ہے۔

وزارت دفاع نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ مظاہرین اشتعال انگیزی اور دھمکیوں والا برتاؤ اختیار کر رہے ہیں اور ضروری خدمات میں خلل ڈال رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: معاشی بحران کا شکار سری لنکا کا ’گولڈن ویزا‘ فروخت کرنے کا اعلان

حکومت نے ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے فوج کو جمعہ کے روز لوگوں کو گرفتار کرنے اور حراست میں لینے کے اختیارات دے دیے، جب ٹریڈ یونینوں نے صدر گوٹابایا راجاپکسے کو استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش میں ملک کو ایک مجازی تعطل پر پہنچا دیا۔

ملک کے ہزاروں عوام کے طرف سے 31 مارچ کو کولمبو میں صدر کی ذاتی رہائش گاہ پر دھاوا بولنے کے بعد کبھی ان کو عوام میں نہیں دیکھا گیا۔

تاہم 9 اپریل سے ہزاروں افراد کولمبو میں ان کے دفتر کے باہر کیمپ قائم کرکے بیٹھے ہیں۔

الہٰی مداخلت

مہندا راجاپکسے کا انورادھاپورہ کا دورہ حکمراں خاندان کی مذہبی سرگرمیوں کا ایک حصہ ہے کیونکہ یہ بدھ مت اکثریتی ملک میں اقتدار پر قابض ہے۔

مقامی میڈیا نے اطلاع دی کہ صدر کے ذاتی پادری گنانا اکا نے بوتل میں بند پانی روایتی انداز میں پھونکا اور اسے احتجاجی مقام پر اس امید سے پہنچایا کہ تحریک ختم ہو جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: سری لنکا میں معاشی بحران کےخلاف احتجاج میں پہلی ہلاکت

ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیر اعظم کی اہلیہ شرانتھی، جو مسیحی ہیں، نے ایک ہندو مندر کا دورہ کیا اور اپنے خاندان کے اقتدار میں رہنے کی کوشش کے لیے الہٰی مدد حاصل کی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر، سری لنکا کو بحران سے نکالنے کے لیے متحدہ حکومت کے لیے راستہ صاف کرنے کی کوشش میں اپنے بھائی مہندا سے دستبردار ہونے کو کہہ سکتے ہیں۔

تاہم ملک کے سب سے بڑی اپوزیشن جماعت نے پہلے ہی یہ بات واضح کردی ہے کہ وہ ایسی کسی بھی حکومت کا حصہ نہیں بن سکتی جس میں راجاپکسے خاندان کا کوئی بھی رکن شامل ہو۔

مزید پڑھیں: سری لنکا میں بحران ابتر، کابینہ کے 26 وزرا نے استعفیٰ دے دیا

یاد رہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس کے بعد سری لنکا کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے کیونکہ سیاحت اور ترسیلات سے آنے والی آمدنی ختم ہونے سے اس کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔

اپریل میں ملک نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ 51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے ادا کرنے سے قاصر ہے۔

سری لنکا کے وزیر خزانہ علی صابری نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ ملک کو دو سے زائد برسوں تک بے مثال معاشی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں