سندھ ہائیکورٹ: عمر کے تعین کیلئے دعا زہرہ کا میڈیکل ٹیسٹ کروانے کا حکم

اپ ڈیٹ 06 جون 2022
دعا زہرہ اور اس کے شوہر ظہیر احمد دونوں کو ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز
دعا زہرہ اور اس کے شوہر ظہیر احمد دونوں کو ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز

سندھ ہائی کورٹ نے کراچی سے لاپتا ہو کر بہاولنگر سے بازیاب ہونے والی دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کرانے کا حکم دے دیا۔

گزشتہ روز بہاولنگر سے بازیاب ہونے والی دعا زہرہ کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا، عدالت نے گزشتہ سماعت پر سندھ پولیس سمیت متعلقہ عہدیداران کو حکم دیا تھا کہ 10 جون تک دعا زہرہ کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ دعا زہرہ بازیاب ہوگئی ہیں، پیش کرکے بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں، عدالت نے دعا زہرہ کو آج ہی پیش کرنے کی اجازت دی۔

سماعت کے دوران جسٹس جنید غفار کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت کی تاریخ 10 جون مقرر کی گئی تھی تو آج کیوں آئے ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی سے لاپتا دعا زہرہ کو بہاولنگر سے بازیاب کرا لیا گیا

عدالتی استفسار پر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالت نے حکم دیا تھا جیسے ہی دعا زہرہ بازیاب ہو پیش کیا جائے، لاہور ہائی کورٹ نے بھی 10 جون کو دعا زہرہ کو طلب کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لڑکے کے والدین نے ہراساں کرنے کی درخواست دائر کی ہے۔

اس موقع پر جسٹس امجد سہتو نے استفسار کیا کہ ملزم کہاں ہے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ لڑکی اپنی مرضی سے صوبہ چھوڑ گئی تھی، لڑکی نے پنجاب جاکر شادی کی ہے اس لیے یہاں کے قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس صوبے میں کوئی جرم نہیں ہوا ہے، شادی سندھ سے باہر ہوئی ہے اس لیے کم عمری کی شادی کی دفعات نہیں لگتی، بچی اپنی مرضی سے گئی ہے، یہاں کوئی جرم نہیں ہوا ہے۔

جسٹس جنید غفار نے ریمارکس دیے کہ بچی کی بازیابی سے متعلق درخواست تو غیر مؤثر ہوچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دعا زہرہ کی لاہور سے ’ملنے‘ کی خبر پر لوگوں کے تبصرے

دوران سماعت عدالت نے دعا زہرہ سے والدین کے ملاقات کے حوالے سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ اپنے والدین سے ملنا چاہتی ہیں، جس پر دعا نے انکار کردیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ بچی ہمارے سامنے کھڑی ہے، وہ خود کہہ رہی ہے کہ مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا ہے، ہم لڑکی کے میڈیکل کرانے کا حکم دے رہے ہیں۔

انہوں نے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے کہا کہ والدین کھڑے ہیں پریشان ہیں مگر ہم نے قانون کو دیکھنا ہے، اگر لڑکی ملنا نہیں چاہتی ہے تو ہم کیسے زبردستی کر سکتے ہیں۔

دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ لڑکی کی عمر کم ہونے کے باعث اغوا کا مقدمہ درج کرایا ہوا ہے، جس پر جسٹس جنید غفار نے ریمارکس دیے کہ ابھی لڑکی بیان دے گی تو اغوا کا مقدمہ ختم ہو جائے گا۔

عدالتی احکامات کے بعد دعا زہرہ سے حلفی بیان لیا گیا، جس میں دعا زہرہ نے کہا کہ مجھے چشتیاں سے بازیاب کرایا گیا ہے۔

دعا زہرہ نے کہا کہ میں ظہیر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں، میری عمر 18 سال ہے اور مجھے اغوا نہیں کیا گیا تھا، مجھے ظہیر احمد نہیں لے کر گیا میں اپنی مرضی سے گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: دعا زہرہ کے طبی معائنے کیلئے دائر پولیس کی درخواست مسترد

وکیل نے کہا کہ نادرا کا برتھ سرٹیفیکیٹ موجود ہے جس کے مطابق دعا زہرہ 27 اپریل 2008 میں پیدا ہوئی ہیں، اس لحاظ سے اب دعا کی عمر 14 سال اور کچھ دن ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے استدعا کی کہ اس لڑکے ظہیر کو ہماری حفاظتی تحویل میں دیا جائے۔

عدالت نے کیس کے تفتیشی افسر کو دعا کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے دعا زہرہ کو شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دے دیا۔

دعا زہرا کیس کا تحریری حکم نامہ جاری

سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرا کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، کیس کے تحریری حکم نامے کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی درخواست پر کیس کی سماعت کی گئی، سندھ ہائیکورٹ نے 3 جون کو دعائے زہرا کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا، دعائے زہرا کو آج پیش کردیا گیا ہے، عدالت نے دعائے زہرا کا حلفیہ بیان ریکارڈ کرلیا ہے۔

تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ لڑکی نے بتایا کہ اسکی 17 سے 18 سال ہے، دعائے زہرا نے اپنے بیان میں کہا کہ مجھے کسی نے اغواء نہیں کیا، اغوا کا جھوٹا مقدمہ درج کرایا گیا، پولیس نے مجھے چشتیاں سے بازیاب کرایا ہے، اب مجھے میرے شوہر ظہیر کے ساتھ جانے دیا جائے۔

تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ یہ شادی صوبہ سندھ سے باہر ہوئی ہے اور مقدمہ چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت نہیں درج کرایا گیا، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ لڑکی کے والد نے اغوا کا مقدمہ درج کرایا جو لڑکی کے بیان کے بعد نہیں بنتا ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے 10 جون کو دعائے زہرا کو پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے تحریری حکم نامے کے مطابق دوراں سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ دعائے زہرا کم عمر ہے، درخواست گزار کے وکیل نے دعائے زہرا کا برتھ سرٹیفیکیٹ اور پاسپورٹ پیش کیا، لڑکی کے بیان حلفی کے بعد اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا ہے، حتمی فیصلے تک دعائے زہرا کو تحویل میں رکھا جائے۔

تحریری حکم نامے میں عدالت نے دعائے زہرا کی عمر کی تصدیق کے لیے اوسیفیکشن ٹیسٹ کرانے کا حکم دے دیا، کیس کے تفتیشی افسر 2 روز میں دعائے زہرا کی عمر کے تعین سے متعلق ٹیسٹ کراکر رپورٹ پیش کریں، دعا زہرا کو شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دیا جاتا ہے۔

اس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت 8 جون تک ملتوی کردی۔

واضح رہے گزشتہ ماہ کراچی کے علاقے ملیر سے لاپتا ہونے والی لڑکی دعا زہرہ کو 5 جون کو بہاولنگر سے بازیاب کرا لیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں ایس ایس پی زبیر نذیر شیخ کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے دعا زہرہ کے شوہر کو بھی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا ہے، دونوں کو قانونی تقاضے مکمل کرنے کے بعد کراچی لایا جائے گا۔

خیال رہے کہ عدالتی احکامات کے بعد سندھ پولیس نے دعا زہرہ کی بازیابی کے لیے وزارت داخلہ سے مدد مانگی تھی، جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو 10 جون کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

30 مئی کو عدالت نے کراچی سے لاپتا ہوکر صوبے سے باہر پہنچنے والی دعا زہرہ کی والدہ کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران لڑکی کی بازیابی میں ناکامی پر عدالت نے آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو دوسرا افسر تعینات کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: دعا زہرہ کی بازیابی کیلئے والد کی درخواست پر فریقین کو نوٹس

عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ صوبے کی پولیس اتنی نااہل ہوچکی ہے، عدالت 21 دن سے احکامات جاری کر رہی ہے لیکن بچی کو بازیاب نہیں کروایا گیا، پولیس بچی کو بازیاب نہیں کروائے گی تو کون بچی کو بازیاب کروائے گا۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم نے آخری موقع دیا تھا لیکن بچی بازیاب نہیں ہوئی ہے، ہم آئی جی سندھ کو شوکاز نوٹس جاری کریں گے، اگر بچی کو 10 جون تک پیش کردیا گیا تو شوکاز نوٹس واپس لے لیں گے۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری تحریری حکم نامے میں عدالت نے آئی جی سندھ کامران افضل سے چارج لینے کا حکم دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت جاری کی تھی کہ آئی جی سندھ کا چارج کسی اہل افسر کو دیا جائے۔

دعا زہرہ کیس

خیال رہے کہ 16 اپریل کو کراچی کے علاقے گولڈن ٹاؤن سے 14 سالہ لڑکی دعا زہرہ لاپتا ہوگئی تھی جس کے بعد پولیس نے اس کی تلاش کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے بھی مارے تھے، تاہم پولیس دعا زہرہ کو تلاش کرنے میں ناکام رہی تھی۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دعا زہرہ کے اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی سے تفیصلی رپورٹ طلب کی تھی۔

مزید پڑھیں: دعا زہرہ کیس: عدالت کا آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹانے کا حکم

دعا زہرہ لاپتا کیس کے باعث سندھ حکومت کو سخت تنقید کا سامنا تھا اور مختلف حلقوں کی جانب سے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔

تاہم 25 اپریل کو پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تصدیق کی تھی کہ دعا زہرہ کا سراغ لگا لیا گیا ہے، وہ خیریت سے ہیں۔

26 اپریل کو پنجاب پولیس کو دعا زہرہ اوکاڑہ سے مل گئی تھیں، جس کے بعد انہیں لاہور میں مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی پتا چلا تھا کہ دعا زہرہ نے ظہیر نامی لڑکے سے شادی کرلی ہے۔

مجسٹریٹ نے دعا زہرہ کو دارالامان بھیجنے کی پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں آزاد شہری قرار دیا تھا۔

علاوہ ازیں دعا زہرہ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’میرے گھر والے زبردستی میری شادی کسی اور سے کروانا چاہتے تھے، مجھے مارتے پیٹتے تھے، مجھے کسی نے بھی اغوا نہیں کیا، میں اپنی مرضی سے گھر سے آئی ہوں اور اپنی پسند سے ظہیر سے شادی کی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی سے ’لاپتا‘ دعا زہرہ کا سراغ لگا لیا گیا، مراد علی شاہ

انہوں نے کہا تھا کہ میرے اہل خانہ میری عمر غلط بتا رہے ہیں، میں 14 سال کی نہیں بلکہ بالغ ہوں، میری عمر 18 سال ہے۔

ضلع کچہری لاہور میں دعا زہرہ نے اپنے والد اور کزن کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا، جس میں انہوں نے اپنی مبینہ پسند کی شادی کے بعد والد پر لاہور میں واقع گھر میں گھسنے اور انہیں اغوا کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

مجسٹریٹ نے والد کے خلاف شواہد پیش کرنے کے لیے دعا زہرہ کو 18 مئی کو عدالت میں طلب کیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Kashif Jun 07, 2022 12:53am
کیا سگنل پر لال بتی توڑنے سے اگر قانون شکن کو یا کسی اور کو نقصان نہیں پہنچتا تو کوئی سزا تو نہیں بنتی یا اگر شہری قانون کا اطلاق اتنا ہی کمزور ہے تو ہم اپنے بچے گھر سے باہر جانے دیں بھی یا نہیں۔