'ملکی ترقی کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز ملکر میثاق معیشت پر اتفاق کریں'

اپ ڈیٹ 08 جون 2022
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا اس وقت تک معاشی استحکام نہیں آسکتا، — فوٹو: ڈان نیوز
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا اس وقت تک معاشی استحکام نہیں آسکتا، — فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھیں اور 'میثاق معیشت' پر بات کریں تاکہ کوئی بھی حکومت آئے ان اہداف کو کوئی تبدیل نہ کرسکے۔

وزیراعظم شہباز شریف کا پری بجٹ بزنس کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا اس وقت تک معاشی استحکام نہیں آسکتا، اسی طرح معاشی استحکام سے سیاسی استحکام جڑا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 75 برس گزرنے کے باوجود یہ معاملہ مشوروں کی حد تک رہے گا، ہم کب ان قابل قدر تجاویز پر عمل درآمد کو ممکن بنائیں گے، یہ باتیں درست ہیں کہ حکومت اچھی تجاویز کو سن کر ان پر عملدرآمد کرے، لیکن ہمیں اسے اب حقیقت میں تبدیل کرنا ہوگا۔

وزیراعظم شہبازشریف نے زرعی ماہر کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نہیں کہے گا کہ دیہات دیہات رہے، لیکن آپ کو اس دیہات میں رہ کر شہر جیسی سہولیات مہیا کرنی ہیں، اسکول، کالجز، ہسپتال، تحقیقی مراکز، ٹریننگ سینٹرز بنانے ہیں وہاں پر خودبخود زندگی شہر کی طرح بدل جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا جاپان کے ساتھ تجارت کے فروغ میں حائل رکاوٹیں دور کا عزم

ان کا کہنا تھا کہ زراعت کو بہت تیزی سے آگے بڑھانا ہے، اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فی ایکٹر پیداوار کو بڑھانا ہے، میرا یہ ماننا ہے کہ زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جس سے پاکستانی معیشت ترقی کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم باہر سے ساڑھے چار ارب ڈالر کا پام آئل درآمد کرتے ہیں، پاکستان میں کس چیز کی کمی ہے کہ ہم اس کی درآمد کا متبادل کرکے خطیر زرمبادلہ نہیں بچاسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد این ایف سی کے تحت زیادہ حصہ صوبوں کو جاتا ہے، ہمیں صوبوں کے ساتھ مل کر مربوط پلان بنانا ہوگا تاکہ صوبے اور وفاق مل کر زراعت، صنعت، برآمدات سمیت دیگر شعبوں کی ترقی کے لیے کام کرسکیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج کے اجلاس کی روشنی میں ہم ٹاسک فورس قائم کریں گے جن میں زرعی ٹاسک فورس، برآمدی ٹاسک فورس، فنانشل ٹاسک فورس وغیرہ شامل ہیں تاکہ ہم مربوط پلان بنا کر آگے نکلیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کپاس درآمد کرتا ہے، اس کے بعد گارمنٹس بنا کر برآمد کرتاہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سب کچھ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف ترکی کے ساتھ 5 ارب ڈالر کی تجارت کیلئے پُرامید

وزیراعظم نے گوادر دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گوادر میں شہریوں کو پانی نہیں ملتا، گوادر میں بجلی نہیں ہے، پانچ سال بعد بھی گوادر ایئر پورٹ صرف 36 فیصد بنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے کہتا ہوں کہ باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے ہم نے پہلے ہی 75 سال ضائع کردیے ہیں اب وقت ہے کام کرنے کا، اگر اب بھی ہم نے کام نہیں کیا تو ہم بڑے یورپی ممالک تو دور کی بات، چھوٹے ممالک سے بھی مسابقت نہیں کرسکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہترین لوگوں کی کمی نہیں ہے، پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، زرخیز زمین ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور میں ایل این جی کے چار پلانٹس لگے جس میں چوتھا سیمینز کا 1250 میگاواٹ کا تھا، چوتھا پلانٹس 10 ارب روپے سستا تھا، اس پاور پلانٹ کو مارچ 2020 تک فعال ہوجانا چاہیے تھا، آج اس میں دو سال سے زیادہ کی تاخیر ہے، اس کا کون ذمہ دار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گوادر میں ترقیاتی کاموں کی رفتار تسلی بخش نہیں ہے، وزیراعظم

ان کا کہنا تھا کہ دو سال پلانٹ نہ چلنے سے زراعت اور صنعت کو نقصان پہنچا، معیشت کو نقصان پہنچا، جو نفع ملنا تھا وہ نہیں ملا تو پھر کس طرح یہ ملک آگے چلے گا۔

انہوں نے کہا یہ یہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آج پاکستان آگے نہیں بڑھ سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ جتنے اچھے پلان بنا لیں اگر اس پر عملدرآمد نہیں کیا تو کچھ نہیں ہوگا۔

شہبازشریف نے کہا کہ افسرشاہی کا جائز رونا ہے کہ کام کرو تو پکڑ کر جیلوں میں بند کردیتے ہیں، نیب کے عقوبت خانوں میں ڈال دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے چار شعبوں کی نشاندہی کرلی ہے، ہمیں برآمدی صنعتوں پر توجہ دینی ہوگی، زرعی پیداوار کو بڑھانا ہے جس کا انحصار ایگری انڈسٹریل انویسمنٹ پر ہو۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم نے بجٹ پر مشاورت کیلئے معاشی ماہرین کو طلب کرلیا

انہوں نے کہا کہ میں نے ترکی کا دورہ کیا ان کے ساتھ تعلقات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی ہے، چین کے ساتھ بھی تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کی ہے، اسی طرح جاپانی حکام کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے، چھوٹے چھوٹے کام اٹکے ہوئے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کام کرنے کی تڑپ نہیں ہوگی تو ترکی، چین، جاپانی سمیت دیگر ممالک ناراض ہی ہوں گے۔

آئی ٹی انڈسٹری کی بات کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں پاکستانی لوگ ذہین، باصلاحیت اور خوبصورت ہیں لیکن کس طرح ان کی آئی ٹی انڈسٹری 200 ارب ڈالر کی ہے، جبکہ پاکستان کی انڈسٹری 3 ارب ڈالر سے زیادہ کی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں لازمی طور پر اسپیشل ایکسپورٹ انڈسٹریل زونز قائم کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ دیگر اکنامک زونز میں صنعتیں تو قائم نہیں ہوئیں بلکہ لینڈ مافیا آگئے، چاہے پنجاب، کےپی، سندھ یا بلوچستان کے زونز دیکھ لیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’معاشی ترقی کی رفتار سست، مہنگائی میں اضافے کا اندیشہ‘

ان کا کہنا تھا ہم زمین ڈیولپ کرکے میرٹ کی بنیاد پر مفت فراہم کریں گے تاکہ سرمایہ کار آئیں اور وہاں پر کام کریں، اور یہ ہم بزنس کمیونٹی پر احسان نہیں کریں گے، برآمدات بڑھانے کے لیے ہمیں مراعات دینا ہوں گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں نے امین الحق کو کہا ہے کہ مجھے دو سال میں آئی ٹی کی 15 ارب ڈالر کی برآمدات چاہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے منصوبے جو عوامی مفاد کے ہیں انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کیا جانا چاہیے، اس لیے کوئلے کے پاور پلانٹس کے لیے آپ لوگ آگے بڑھیں، تھر کول اور بلوچستان میں کوئلے کے ذخائر ہیں، حکومت بھرپور تعاون کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سب کے لیے بہت سخت وقت ہے، اس ملک میں بیوہ، یتیم اور غریب آدمی نے سختی برداشت کی ہے ایسا گھرانہ جو محنت کرکے رزق حلال کماتا ہے لیکن بڑی مشکل سے گزر بسر کرتا ہے، آج ہم نے جو قیمتیں بڑھائی ہیں، لیکن ہم 7 کروڑ لوگوں کے لیے 2 ہزار ماہانہ دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آج قربانی دینے کا وقت آیا ہے، جذبہ ایثار اور قربانی سے کام لینا ہوگا، غیر پیداواری اثاثوں پر ٹیکس لگانا آج فرض بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے، خالی زمینیں پڑی ہیں ہمیں رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس عائد کرکے قوم کے لیے پیسے حاصل کرنے چاہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

سید اختر عباس زیدی Jun 08, 2022 05:36pm
تمام اسٹیک ہولڈرز کے میثاق معیشت پر اتفاق کے نتیجے میں ہی غالباً موجودہ حکومت بنی ہے یہ میثاق ابھی تک قوم کی کھال ادھیڑنے میں مصروف ہے اس مصروفیت سے وقت ملا تو معلوم ہو گا کہ میثاق پر یہ اتفاق تھا کس لئے