ایف آئی اے نے مونس الہٰی کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کر لیا

اپ ڈیٹ 15 جون 2022
مونس الہٰی کے وکیل نے مقدمے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے— فائل فوٹو: ٹوئٹر
مونس الہٰی کے وکیل نے مقدمے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے— فائل فوٹو: ٹوئٹر

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الہٰی کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرلیا جس کو انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مونس الہٰی کے وکیل عامر سعید راں نے مقدمے کے اندراج کے بعد ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقدمے سے قبل انکوائری کرنا ضروری ہے، تفتیش کیے بغیر مقدمہ درج نہیں ہو سکتا۔

مزید پڑھیں: مونس الہٰی نے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کو دباؤ ڈالنے کا حربہ قرار دے دیا

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کا مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے اور ایف آئی اے کے مقدمے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

ایف آئی اے کی ایف آئی آر میں مونس الہٰی پر دفعہ 34، 109، 420، 468 اور 471 کے ساتھ ساتھ منی لانڈرنگ ایکٹ کی سیکشن چار شامل کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ 2020 کی شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں ایف آئی اے کو وفاقی حکومت نے رحیم یار خان الائنس شوگر ملز سمیت مالی اور کارپوریٹ فراڈ میں ملوث تمام شوگر کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا تھا۔

استغاثہ نے مؤقف اپنایا کہ رحیم یار خان/الائنس شوگر ملز گروپ کے خلاف تحقیقات کے دوران یہ سامنے آیا کہ ایک دوسرے گریڈ کے سرکاری ملازم نواز بھٹی اور ایک طالبعلم مظہر عباس نے مشترکہ طور پر 08-2007 میں رحیم یار خان میں شوگر مل بنائی، اس کو نامعلوم ذرائع سے آنے والے منی لانڈرنگ کے فنڈ سے بنایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ 2018 میں شوگر مل کے کیپیٹل کی مالیت بڑھ کر 72 کروڑ روپے تک پہنچ گئی، زمین، پلانٹ خریدنے وغیرہ کے لیے فنڈز کے ذرائع کی تفصیل نہیں بتائی گئی جبکہ 2010 میں مذکورہ بالا دونوں شخصیات 66 فیصد کے اکثریتی حصص کی مالک تھیں، لیکن 2011 سے 2014 کے درمیان وہ اپنے حصص سے دستبردار ہو گئے اور اس کی وجہ بھی بیان نہیں کی گئی۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ اب تک جانچے گئے بینکوں کے ریکارڈ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایم نواز بھٹی اور مظہر عباس نے 24 ارب روپے کے ٹرن اوور والے متعدد بینک اکاؤنٹس میں دستخط کیے تھے۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ ان کے حصص، ثالثوں سے گزرنے کے بعد دو ایس پی وی نواز بھٹی کے بھتیجے اور پنجاب اسمبلی کے ملازم وجیہہ احمد خان بھٹی کے ساتھ ساتھ کیسکیڈ پرائیویٹ لمیٹیڈ نے حاصل کرلیے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس کے اہم کردار مقصود چپڑاسی کا انتقال ہوگیا

ایس پی وی ایک ذیلی کمپنی ہے جو کسی مخصوص کاروباری مقصد یا سرگرمی کو انجام دینے کے لیے بنائی جاتی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق یہ دونوں ایس پی وی ملزم چوہدری مونس الہٰی کے زیر کنٹرول ہیں (ایک براہ راست اور دوسرے کو بالواسطہ طور پر ان کے خاندان کے فرد کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے)، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملزم ایم نواز بھٹی اور مظہر عباس نے اپنی شناخت بتائی اور چوہدری مونس الہٰی کے لیے کام کیا تاکہ رحیم یار خان ملز لمیٹڈ کے قیام کے لیے استعمال کیے گئے ناجائز فنڈز/آمدنی کی اصلیت اور نوعیت کو چھپایا جاسکے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ریکارڈ سے مزید انکشاف ہوا ہے کہ مخدوم عمر شہریار (اس وقت کی مجوزہ رحیم یار خان ملز لمیٹڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر) نے 25 جون 2007 کو سیکریٹری انڈسٹریز پنجاب کو ایک درخواست کے ذریعے شوگر مل کے قیام کے لیے این او سی کے اجرا کے لیے درخواست دی، جسے وزارت صنعت پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب آفس نے یکے بعد دیگرے منظور کر لیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ موجودہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر اور مونس کے والد پرویز الہٰی اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور ان کے ’جرم کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا’۔

مزید یہ کہ شہریار اور اس کے بہنوئی طارق جاوید کے پاس 2020 تک مل میں مجموعی طور پر 30.59 فیصد شیئرز تھے اور غیر قانونی طور پر حاصل کیے گئے فنڈز/آمدنی کی ان کی سرمایہ کاری کی نوعیت اور ذرائع بھی واضح نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: مخلوط حکومت سے علیحدگی کے خدشے پر آصف زرداری کی چوہدری شجاعت سے ملاقات

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ انکوائری نے ثابت کیا کہ مونس الہٰی، نواز بھٹی، مظہر عباس، شہریار، جاوید، وجیہہ اور محمد خان بھٹی منی لانڈرنگ میں ملوث رہے ہیں۔

مقدمہ درج ہونے کے بعد مونس الہٰی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ جو کرنا ہے کر لو، میں پہلے بھی پیش ہوا تھا میں اب پھر پیش ہوں گا، میرا انتظار کرو میں آرہا ہوں۔

متعدد ٹی وی چینلز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ایف آئی اے نے مونس الہٰی کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ چلانے کے لیے کافی ثبوت حاصل کر لیے ہیں، تاہم ایف آئی اے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے بھی آزادانہ طور پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

مونس الہٰی نے خود مذکورہ ٹی وی رپورٹ کی تصویر ’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ کے ساتھ ٹوئٹر پر پوسٹ کی تھی جس سے بظاہر ان کی مراد یہ سمجھی گئی کہ وہ کسی بھی تحقیقات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ایک اور ٹوئٹ میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما نے کہا تھا کہ ’مسلم لیگ (ن) کے دباؤ کے ہتھکنڈے سابق وزیر اعظم عمران خان سے مسلم لیگ (ق) کی حمایت واپس نہیں لے سکیں گے، یہ سمجھنا مسلم لیگ (ن) کی بھول ہے کہ وہ مجھ پر سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ساتھ وفاداری تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہے‘۔

اس کے علاوہ ڈان سے بات کرتے ہوئے مونس الہٰی نے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو ان کے خاندان کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات قائم کرنے کی عادت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری شجاعت کا پرویز الہٰی سے اختلاف برقرار، (ن) لیگ سے اتحاد جاری رکھنے کی یقین دہانی

انہوں نے مزید کہا تھا کہ اس طرح کے کسی بھی معاملے کو سیاسی محرکات کے طور پر دیکھا جائے گا جن کا مقصد انہیں نشانہ بنانا ہے، ان کا کہنا تھا کہ میرے تمام کاروباری لین دین دستاویزی اور قانونی ہیں۔

پرویز الہٰی نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ایک پیغام پہنچایا گیا ہے کہ وہ واپس لوٹ کر اپنی غلطی کا ازالہ کر سکتے ہیں، عمران خان کی حمایت واپس لینے سے انکار پر انہوں نے مجھ پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں