سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے راؤ انوار کو 5 کروڑ کا ہتک عزت نوٹس بھیج دیا

30 جون 2022
سابق آئی جی سندھ نے راؤ انوار پر ایک ’بدنام زمانہ افسر‘ ہونے کا الزام لگایا  —فائل فوٹو: بشکریہ ٹویٹر
سابق آئی جی سندھ نے راؤ انوار پر ایک ’بدنام زمانہ افسر‘ ہونے کا الزام لگایا —فائل فوٹو: بشکریہ ٹویٹر

سندھ کے سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اللہ ڈنو(اے ڈی) خواجہ نے 18 جون کو جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں اپنے خلاف توہین آمیز الفاظ کا استعمال کرنے پر ریٹائر سینئر سپرنٹینڈنٹ (ایس ایس پی) راؤ انوار کو 5 کروڑ روپے کا ہتک عزت کا نوٹس بھیج دیا۔

اے ڈی خواجہ نے ڈان ڈاٹ کام کو تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 'میں نے راؤ انوار کو توہین آمیز انٹریو پر قانونی نوٹس بھیجا ہے'۔

واضح رہے کہ جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں میزبان سلیم صافی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے راؤ انوار نے سابق آئی جی سندھ کو ’منافق‘ قرار دیا تھا اور ان پر دیگر مسائل کے ساتھ ’مجرموں کو مارنے اور ان کی لاشیں پھینکنے‘ کے احکامات جاری کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

مزید پڑھیں: اے ڈی خواجہ کون ہیں؟

اے ڈی خواجہ کی وکیل بیرسٹر آمنہ عثمان نے 28 جون 2022 کو بھیجے گئے قانونی نوٹس میں راؤ انوار کے انٹریو کا حوالہ دیا ہے۔

اپنے قانونی نوٹس میں سابق آئی جی سندھ نے راؤ انوار پر ایک ’بدنام زمانہ افسر‘ ہونے کا الزام لگایا اور کہا کہ انہوں (راؤ انوار) نے ’سیاسی سرپرستی اور بیرونی اثرات‘ کے ذریعے اپنے کیریئر میں ترقی پائی۔

راؤ انوار کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے سابق آئی جی سندھ نے سابق ایس ایس پی کے دعووں کو ’جھوٹ اور بے بنیاد‘ قرار دے دیا۔

نقیب اللہ محسود کا قتل

اے ڈی خواجہ نے اس الزام کی بھی تردید کی کہ جنوری 2018 میں کراچی میں ایک منصوبے کے تحت مقابلے میں قتل کیے گئے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کے والد کو ان کے کہنے پر کراچی طلب کیا گیا تھا۔

سابق آئی جی نے دعویٰ کیا کہ شکایت کنندہ کے والد اور گواہوں کو راؤ انوار اور ٹیم کی جانب سے ان کی جان کو لاحق سنگین خطرات کی وجہ سے سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔

انہوں نے مقابلوں میں مارے جانے والوں اور لاشوں کو پھینکنے کے حوالے سے راؤ انوار کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت کی بھی تردید کی۔

راؤ انوار کو بھیجے گئے قانونی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ آپ کی نافرمانی اور بہت سے معاملات پر آپ کے ماورائے عدالت اثرات، گڑ بڑ، زمینوں پر قبضے میں ملوث ہونے اور ریتی بجری مافیا کے ساتھ ملی بھگت کی وجہ سے سابق آئی جی سندھ آپ (راؤ انوار) سے مکمل طور پر ناخوش تھے۔

اے ڈی خواجہ نے کہا کہ راؤ انوار کو 2017 میں معطل کیا گیا تھا کیونکہ اس نے سندھ میں قائد حزب اختلاف کے گھر پر چھاپہ مارا تھا جو ان کے بقول ’ان کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں تھا‘۔

سابق آئی جی نے اپنے نوٹس میں وضاحت کی کہ راؤ انوار کو چیف سیکریٹری سندھ نے اس وقت کے آئی جی سندھ کی سفارش کے بغیر بحال کیا اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں ایس ایس پی ملیر تعینات کیا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ کی 'جبری رخصت' پر حکم امتناع

نقیب اللہ محسود کے مبینہ مقابلے میں قتل اور اس کے بعد فروری 2018 میں آئی جی سندھ کی جانب سے انکوائری کمیٹی کی تشکیل کا حوالہ دیتے ہوئے نوٹس میں کہا گیا کہ راؤ انوار نے دو بار ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر بروقت اس کا نام شامل کرنے کی وجہ سے انہیں روک دیا گیا تھا۔

ٹی ایل پی کا احتجاج روکنے کا حکم

سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے اس الزام کی بھی تردید کی کہ انہوں نے چند سال قبل کراچی میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے جلوس کے خلاف طاقت کے استعمال کا حکم دیا تھا۔

نوٹس میں کہا گیا کہ ہمارے مؤکل نے بطور آئی جی سندھ ڈی آئی جی ایسٹ کو امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ہدایات جاری کی تھیں کیونکہ ٹی ایل پی مرکزی سڑک یعنی شارع فیصل کو بلاک کرنے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔

نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ کراچی کی ایک اہم شاہراہ ہے اور ایئرپورٹ کا واحد راستہ ہے، اس لیے آئی جی سندھ نے ڈی آئی جی کو ٹریفک کی روانی یقینی بنانے کے لیے کہا تھا۔

اے ڈی خواجہ نے انٹرویو میں کہا کہ راؤ انوار نے طاقت کے استعمال کا سہارا لیا جو کہ ’غیر معمولی سفاکانہ عمل‘ تھا۔

سابق آئی جی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور اپنی قانونی ذمہ داری کے تحت انکوائری کا حکم بھی دیا تھا۔

راؤ انوار کی 'ذاتی رنجش'

سابق آئی جی نے راؤ انوار کے انٹرویو کو ان کی ’ذاتی رنجش‘ کی عکاسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سابق ایس ایس پی کو دو بار معطل کیا تھا، ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا، ان کے خلاف مقدمہ درج کیا اور انہیں گرفتار بھی کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن معطل

اے ڈی خواجہ نے راؤ انوار کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے نوٹس میں لکھا کہ ’آپ کو ایک بدنام پولیس اہلکار کے طور پر جانا جاتا ہے جو سیاسی سرپرستی اور بیرونی اثر و رسوخ پر پروان چڑھا تھا۔

قانونی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ واضح طور ظاہر ہے کہ انٹرویو بغیر کسی تصدیق یا ثبوت کے دیا گیا تھا اور صرف ہمارے مؤکل کی ساکھ خراب کرنے کے لیے دیا گیا۔

نوٹس میں اے ڈی خواجہ نے راؤ انوار سے کہا کہ وہ قانونی نوٹس موصول ہونے کے 14 دن کے اندر معافی مانگیں اور 5 کروڑ روپے ہرجانہ ادا کریں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کے خلاف عدالت میں قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔

راؤ انوار جنوری 2019 میں پولیس سروس سے ریٹائر ہوئے تھے جب کہ انہیں 2018 میں جنوبی وزیرستان کے نوجوان نقیب اللہ محسود سمیت چار افراد کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے کے الزام میں معطل کیا گیا تھا اور انہیں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں