سندھ ہائی کورٹ کا این ای ڈی کے مبینہ مغوی طالب علم کو پیش کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 04 جولائ 2022
بتایا گیا کہ اغوا کار دو پولیس موبائلوں، دو سفید رنگ کی کرولا کاروں اور ایک ڈبل کیبن میں آئے تھے—فائل/فوٹو: وکی میڈیا کومنز
بتایا گیا کہ اغوا کار دو پولیس موبائلوں، دو سفید رنگ کی کرولا کاروں اور ایک ڈبل کیبن میں آئے تھے—فائل/فوٹو: وکی میڈیا کومنز

سندھ ہائی کورٹ نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ عبدالرحمٰن خان کو اگلی سماعت پر ہر حال میں عدالت میں پیش کریں، جنہیں مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اغوا کرکے حراست میں رکھا ہوا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اقبال کلہوڑو اور جسٹس کوثر سلطانہ حسین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے طالب علم عبدالرحمٰن کے والد عبدالمعیز خان کی جانب سے دائر حبس بے جا کی پیٹیشن پر حکم جاری کیا۔

ڈان ڈاٹ کام کو دستیاب درخواست کے متن میں بتایا گیا کہ 'این ای ڈی' یونیورسٹی میں ماسٹرز کے 26 سالہ طالب علم عبدالرحمٰن کو 12 سے 15 نامعلوم مسلح افراد نے 3 جون کی رات کو ان کے گھر سے مبینہ طور پر اغوا کیا تھا۔

مزید بتایا گیا ہے کہ اغوا کار دو پولیس موبائلوں، دو سفید رنگ کی کرولا کاروں اور ایک ڈبل کیبن گاڑی میں آئے تھے، بظاہر اس واقعے میں نجی شرپسند نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے ملوث ہیں۔

مزید پڑھیں: 'ریاستی جبری گمشدگی' کے شکار 7 خاندانوں کے لیے معاوضے کا مطالبہ

عبدالمعیز نے درخواست میں بتایا کہ انہوں نے بعدازاں اسی رات کو پولیس کو درخواست جمع کروانے کی کوشش کی تاہم اسے مسترد کر دیا گیا، جس کے بعد کورئیر کے ذریعے درخواست بھیجی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ان کا بیٹا عبدالرحمٰن لاپتا ہوا ہے، بلکہ اس سے قبل 11 جنوری کو انہوں نے کام کے سلسلے میں کراچی سے راولپنڈی کا سفر کیا، بعدازاں وہ رشتے داروں سے ملنے ٹیکسلا گئے تو انہیں لاپتہ کردیا گیا تھا۔

درخواست کے مطابق جیسے ہی عبدالرحمٰن ٹیکسلا پہنچے تو ان کا موبائل فون بند ہوگیا اور اہل خانہ سے ان کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا، اس کے بعد اہل خانہ نے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی تاہم کوئی سراغ نہیں مل سکا، جس کے بعد انہوں نے لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) سے رجوع کیا تھا۔

اس ضمن میں بتایا گیا کہ عبدالرحمٰن کو راولپنڈی کے علاقے حسن ابدال سے نا معلوم اغوا کاروں نے 4 فروری کو رہا کر دیا تھا، انہوں نے اپنے اغوا کرنے کی تفصیلات اہل خانہ کو بتائیں، اس بیان کو تحریری شکل میں لایا گیا جس پر عبدالرحمٰن نے دستخط بھی کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتا افراد کمیشن بوجھ بن چکا ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ

درخواست کے مطابق بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالب علم کو مبینہ طور پر ان اداروں نے اغوا کیا، جنہوں نے پوچھ گچھ کی تھی۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ درخواست گزار کا یہ خدشہ جائز ہے کہ اس طرح کے اغوا کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ریاستی جبری گمشدگی کے مترادف سمجھا جائے، جس سے بعد میں معزز عدالت کے حکم کی روشنی میں کسی بھی قسم کی غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہونے کے ثبوت کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔

درخواست گزار نے مزید بتایا کہ ان کا بیٹا اعصابی بیماری کا بھی شکار رہا ہے، اس لیے خدشہ ہے کہ ان واقعات سے ان کی صحت زیادہ خراب ہوسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عبدالرحمٰن کو ایک نہیں بلکہ دو بار قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اغوا کیا اور غیرقانونی طور پر زیر حراست رکھا جو آئین کے متعدد آرٹیکلز میں دیے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، جس میں آرٹیکل 4 (افراد سے قانون کے مطابق سلوک کرنے کا حق)، آرٹیکل 9 (سلامتی کا حق)، آرٹیکل 10۔اے (منصفانہ سماعت کا حق)، آرٹیکل 14 (شرف انسانی قابل حرمت ہے)، آرٹیکل 15 (نقل و حرکت کی آزادی)، آرٹیکل 19-اے (معلومات تک رسائی کا حق) اور آرٹیکل 25 (قانون کی نظر میں تمام شہری برابر) شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: 'لاپتا' سابق فوجی افسر 'بحفاظت' لندن پہنچ گئے، 'وقت آنے پر خاموشی توڑوں گا'

اس پٹیشن میں ریاست، وزارت داخلہ، ڈائرکٹریٹ ملیٹری انٹیلی جینس، انٹیلی جینس بیورو، انٹر۔سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی)، ڈائریکٹر جنرل رینجرز سندھ، حکومت سندھ، آئی جی سندھ اور ایس ایس اپی کراچی سینٹرل کو نامزد کیا گیا ہے۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ تمام متعلقہ اداروں کو احکامات دیں کہ وہ ان کے بیٹے کو عدالت میں پیش کریں اور اس سے آئین اور قانون کے مطابق نمٹا جائے اور اگر اس کے خلاف کوئی الزامات ہیں تو بتائے جائیں۔

عدالت سے یہ بھی درخواست کی گئی کہ عبدالرحمٰن کو غیر قانونی طور پر زیر حراست رکھنے اور گرفتار کرنے کے خلاف کارروائی کی جائے۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں نوٹ کیا کہ درخواست گزار کے وکیل جبران ناصر نے بینچ کو بتایا تھا کہ درخواست گزار کی استدعا پر اب تک فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) بھی درج نہیں کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: بلوچ طلبا کی گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے 28 افراد زیر حراست

ایس ڈی پی او گلبرک نے حلف نامے میں کہا ہے کہ اگر شکایت گزار پیش ہوتے ہیں تو ان سے مزید بیان ریکارڈ کیا جائے گا اور اس کی تحقیقات ایسے کیسز کا تجربہ رکھنے والے ڈی ایس پی کی سطح کے افسر کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ رسمی کارروائی کے بعد تفتیشی افسر مبینہ زیر حراست شخص کو بغیر کسی ناکامی کے عدالت میں پیش کرنے کی کوشش کرے گا۔

جس کے بعد عدالت نے کارروائی 9 اگست تک ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں