برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے فوری طور پر عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ

08 جولائ 2022
مستعفیٰ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن— فوٹو: اے ایف پی
مستعفیٰ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن— فوٹو: اے ایف پی

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی جگہ سنبھالنے کے لیے ایک درجن سے زیادہ امیدواروں کی نظریں ہیں، انہوں نے کنزرویٹو پارٹی کی قیادت اور وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا جبکہ ان کے مخالفین انہیں فوری طور پر ڈاؤننگ اسٹریٹ سے ہٹانا چاہتے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق بورس جانسن نے کہا تھا کہ حکومتی وزرا کے استعفوں کے سبب وہ کنزرویٹو پارٹی کی قیادت اور برطانوی وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑ دیں گے جبکہ ان کو متعدد ارکان پارلیمنٹ نے بتایا تھا کہ وہ انہیں عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔

نئے برطانوی وزیراعظم کے انتخاب کے عمل میں چند ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں، سینئر شخصیات اور متعدد غیر معروف اراکین پارلیمنٹ (ایم پیز) کا بھی انتخابات میں حصہ لینے کی توقع ہے۔

برطانویوزیراعظم بورس جانسن مختلف اسکینڈلز کے باعث اعتماد کھو جانے کی وجہ سے مستعفی ہوئے، وہ وزرات عظمی کے عہدے پر برقرار ہیں تاہم یہ صورت حال مخالفین اور ان کی پارٹی کے متعدد لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسکینڈلز کے شکار برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے استعفیٰ دے دیا

لبرل ڈیموکریٹس کے رہنما ایڈ ڈیوی نے بی بی سی ٹی وی کو بتایا کہ میرا خیال ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کو آج ہی ان سے جان چھڑانی چاہیے، یہ مضحکہ خیز ہے کہ وہ قائم مقام وزیراعظم ہیں جس نے کبھی کسی چیز کی پرواہ اور دیکھ بھال نہیں کی۔

اپوزیشن کی لیبر پارٹی نے بھی بورس جانسن سے فوری طور پر جانے کا مطالبہ کیا، اور وعدہ کیا کہ اگرانہوں نے فوری طور پر اقتدار نہ چھوڑا تو وہ پارلیمنٹ میں اعتماد کے ووٹ کی تحریک لائیں گے۔

سیکرٹری برائے تعلیم جیمز کیلورلی نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ جب تک نئے وزیراعظم کا انتخاب نہیں ہوجاتا بورس جانسن ہی وزیراعظم رہیں گے، ہمارے ملک کا نظام اسی طرح چلتا ہے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ کے دو اہم وزرا مستعفی، بورس جانسن کی حکومت ختم ہونے کا خطرہ

بورس جانسن تین سال سے بھی کم عرصہ قبل واضح اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے، ان پر متعدد اسکینڈلز تھے جس میں کووڈ-19 میں لاک ڈاؤن کے قوانین کی خلاف ورزی، سرکاری رہائش گاہ کی پُرتعیش تزئین و آرائش اور جنسی حراسگی کے الزام کے شکار کی بطور وزیر تقرری کرنا شامل تھی۔

قومی مفاد

بورس جانسن نے استعفے کے اعلان کے بعد تقرر کرنے سمیت کابینہ کے سینئر وزرا کو کہا کہ وہ کوئی بڑی تبدیلی نہیں کریں گے جس سے ان کے جانشین کے ہاتھ بندھیں جائیں۔

کنزرویٹو پارٹی کے سابق وزیراعظم جان میجر نے بتایا کہ بورس جانسن نے تقریر میں ‘مستعفی’ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ اسے جبری رخصتی قرار دیا، انہیں ابھی جانا چاہیے۔

اخبار ٹائمز نے اپنے ایڈیٹوریل میں کہا کہ ایسے وزیراعظم جس پر ان کے اپنے وزرا نے عدم اعتماد کرتے ہوئے اجتماعی استعفے دیے ہوں، ان کا وزیراعظم برقرار رہنا قومی مفاد میں نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: ریلوے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے پر تاریخ کی بدترین ہڑتال

رپورٹ کے مطابق بہت سے کنزرویٹو ان کی جگہ لینے کی طرف اپنی توجہ مبذول کر رہے ہیں کیونکہ پُرجوش امیدواروں کی کمی نہیں ہے۔

ابھی تک صرف اٹارنی جنرل سویلا براورمین اور پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین ٹام ٹگینڈہٹ نے باضاطہ طورپر اگلا وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جبکہ تقریباً ایک درجن دیگر افراد کو اس حوالےسے غور کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

وزیراعظم بننے کے لیے صف اول کے امیداواروں میں سابق وزیر خزانہ رشی سناک، وزیر خارجہ لز ٹرس اور وزیر دفاع بین ویلیس شامل ہیں، ان میں سے اب تک کسی نے بھی بطور وزیراعظم امیدوار کھڑا ہونے کا اعلان نہیں کیا ہے۔

وزیراعظم کے انتخاب کے لیے اصولوں اور اوقات کار طے ہونا باقی ہیں، کنزویٹو پارٹی کے اراکین کو امید ہے کہ حتمی طور پر دو امیدوار مدمقابل ہوں گے، اس کے بعد پارٹی اراکین جن کی تعداد 2 لاکھ سے کم ہے وہ فیصلہ کریں گے کہ کون ان کی جماعت کا قائد اور اگلا وزیراعظم ہوگا۔

مزید پڑھیں: بورس جانسن نے لاک ڈاؤن کے دوران پارٹی کے انعقاد پر معافی مانگ لی

برطانوی معیشت مہنگائی، زیادہ قرضے اور کم شرح نمو کی صورتحال سے دوچار ہے جس کے سبب لوگ دہائیوں کے سخت ترین مالیاتی دباؤ کا سامنا کرر ہے ہیں، یہ مسائل یوکرین میں جنگ کے سبب توانائی بحران اور ایندھن کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے ہیں۔

ریلوے کے عملے کی جانب سے تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کی وجہ سے بڑی ہڑتالوں کے ساتھ صنعتی بے چینی میں بھی اضافہ ہورہا ہے، اساتذہ اور ہیلتھ ورکرز نے بھی ہڑتالوں کی دھمکی دی ہے۔

2019 میں انتخابی فتح کے موقع پر انہوں نے ‘بریگزٹ’ کا وعدہ کیا تھا، تاہم برطانیہ شمالی آئرلینڈ کے ساتھ تجارتی قوانین کے حوالے سے یورپی یونین کے ساتھ تلخ صورتحال سے دوچار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ نے جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کی اجازت دے دی

روزنامہ ٹیلی گراف نے اپنے ایڈیٹوریل میں لکھا کہ پارٹی جو بھی فیصلہ کرے اسے جلد کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید لکھا کہ اقتصادی بحران اور یورپ میں وسیع جنگ کے خطرات کے دوران ملک قیادت کے مقابلے کو سمجھے گا اور نہ ہی معاف کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں