ٹریکنگ پرمٹ میں ’تاخیر‘ پر محکمہ سیاحت گلگت بلتستان تنقید کی زد میں آگیا

اپ ڈیٹ 14 جولائ 2022
کے ٹو بیس کیمپ کا ٹریک غیر ملکی ٹریکروں کے لیے سب سے زیادہ مقبول ہائیک ہے— فائل فوٹو: آلامی
کے ٹو بیس کیمپ کا ٹریک غیر ملکی ٹریکروں کے لیے سب سے زیادہ مقبول ہائیک ہے— فائل فوٹو: آلامی

کم از کم 2 درجن غیر ملکی سیاحوں کو ٹریکنگ کے اجازت نامے جاری کرنے میں مبینہ ناکامی پر گلگت بلتستان کا محکمہ سیاحت سخت تنقید کی زد میں ہے، غیر ملکی سیاح دنیا کی دوسری بلند ترین پہاڑی 'کے ٹو' سمیت بلند و بالا چٹانوں کے بیس کیمپوں کا دورہ کرنے کے لیے اسکردو پہنچے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کے ٹو بیس کیمپ کا ٹریک غیر ملکی ٹریکرز کے لیے سب سے زیادہ مقبول ہائیک ہے کیونکہ وہ کونکورڈیا سے بلتورو گلیشئر، گشیربرم ون، گشیربرم ٹو، براڈ پیک اور کے ٹو بیس کیمپس کا دورہ کر سکتے ہیں۔

تاہم ٹریول ایجنٹس اور سیاحوں نے شکایت کی ہے کہ انہیں تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود محکمہ سیاحت کی جانب سے اجازت نامے جاری نہیں کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: کے-ٹو بیس کیمپ کے علاقے میں انٹرنیٹ، موبائل فون کوریج فراہم کردی گئی

ٹور آپریٹر غلام احمد نے کہا کہ محکمہ سیاحت ٹریکنگ پرمٹ جاری کرنے سے گریزاں ہے جبکہ سیاح بیس کیمپوں کی جانب ٹریکنگ شروع کرنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے ایک ماہ سے زائد عرصے سے انتظار کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اجازت ناموں کی منظوری میں طویل تاخیر کے باعث بہت سے سیاحوں نے اپنے منصوبوں کو منسوخ کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں کم از کم 10 غیر ملکی سیاح جنہوں نے کے ٹو بیس کیمپ ٹریک کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا، پرمٹ نہ ملنے کے بعد واپس اپنے وطن لوٹ چکے ہیں، یہ ٹور آپریٹرز کے لیے بھی شرمناک تھا کیونکہ وہ اپنے کلائنٹس کی ڈیمانڈ کو پورا نہیں کر سکتے تھے۔

مزید پڑھیں: نانگا پربت پر پھنسے کوہ پیماؤں کو پاک فوج نے ریسکیو کرلیا

ایڈونچر پاکستان کے سربراہ محمد علی نگری نے ڈان کو بتایا کہ 2012 میں گشیربرم ون پر مرنے والے آسٹریلوی سیاح کے اہل خانہ اسکردو میں ٹریکنگ پرمٹ کا انتظار کر رہے تھے تاکہ وہ مرحوم کوہ پیما کی یاد میں انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گشیربرم ون کے بیس کیمپ کا دورہ کر سکیں۔

آسٹریلوی کوہ پیما کی اہلیہ، ان کی 11 اور 13 سال کی 2 بیٹیاں اپنے والد کی وفات کے 10 سال مکمل ہونے پر بیس کیمپ جانا چاہتی تھیں لیکن انہیں ابھی تک پرمٹ جاری نہیں کیے گئے، اس خاندان کو 26 جولائی کو واپس اپنے وطن جانا ہے اور اگر انہیں ٹریکنگ پرمٹ جاری نہیں کیے گئے تو یہ ٹور کمپنی اور ملک کے لیے شرمناک بات ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹریلوی کوہ پیما کے خاندان نے پاکستان میں فلاحی منصوبوں میں بھی حصہ ڈالا، انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ سیاحت نے اجازت نامے دینے میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔

گلگت بلتستان کے محکمہ سیاحت کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد حسین نے ڈان کو بتایا کہ غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان آنے سے پہلے اجازت نامے کے لیے آن لائن درخواست دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: لاپتا کوہ پیما شہروز کاشف اور فضل علی کا پتا چل گیا

انہوں نے مزید کہا کہ آن لائن عمل میں زیادہ وقت نہیں لگتا اور کچھ معاملات میں محکمہ سیاحت نے 3 روز کے اندر بھی پرمٹ جاری کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب غیر ملکی سیاح اپنی آمد کے بعد ٹریکنگ یا مہم کے پرمٹ کے لیے درخواست دیتے ہیں تو انہیں مینوئل طریقے سے ایسا کرنا پڑتا ہے اور اس عمل میں 28 دن لگ سکتے ہیں۔

افسر نے مزید کہا کہ گائیڈ لائنز کے مطابق ایسی درخواستوں کو پرمٹ جاری کرنے سے قبل سیکیورٹی کلیئرنس سے گزرنا پڑتا ہے۔

’لاپتا‘ کوہ پیماؤں کی واپسی

دوسری جانب اسکردو سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما امتیاز سدپارہ اور شگر سے تعلق رکھنے والے حسن شگری نانگا پربت ( 8 ہزار 126 میٹر) کی چوٹی کامیابی سے سر کرنے کے بعد بیس کیمپ پہنچ گئے۔

مزید پڑھیں: گرمیوں کا موسم ہے، ٹریکنگ کریں گے؟

امتیاز سدپارہ اور حسن شگری اس 8 رکنی ٹیم کا حصہ تھے جس نے پہاڑ کو سر کرنے کی کوشش کی، تاہم غیر ملکی کوہ پیما خراب موسم کی وجہ سے کیمپ 3 سے واپس آگئے تھے جبکہ حسن شگری اور امتیاز سدپارہ نے چوٹی کی جانب اپنا سفر جاری رکھا۔

دیامر کے ڈپٹی کمشنر فیاض احمد نے تصدیق کی کہ دونوں کوہ پیما بیس کیمپ پہنچ چکے ہیں اور ان کی طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں