پاکستان کے ساتھ ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کا معاہدہ طے پا گیا، آئی ایم ایف

اپ ڈیٹ 14 جولائ 2022
ذرائع نے بتایا کہ اس بار آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت معمول سے زیادہ سخت رہی— فائل فوٹو: رائٹرز
ذرائع نے بتایا کہ اس بار آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت معمول سے زیادہ سخت رہی— فائل فوٹو: رائٹرز

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے تصدیق کی ہے کہ 6 ارب ڈالر کے قرض کی سہولت کے لیے پاکستان کے ساتھ ساتویں اور آٹھویں جائزے پر عملے کی سطح پر معاہدہ طے پا گیا ہے، اس پیش رفت سے پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کے قرض کی سہولت ملنے کی راہ ہموار ہوگی۔

اپنی آفیشل ویب سائٹ پر ایک بیان میں آئی ایم ایف نے کہا کہ یہ معاہدہ اس کے ایگزیکٹو بورڈ کی حتمی منظوری سے مشروط ہے۔

آئی ایم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 'آئی ایم ایف کی ٹیم ای ایف ایف کے تعاون یافتہ پروگرام کے مشترکہ ساتویں اور آٹھویں جائزوں کے لیے پاکستانی حکام کے ساتھ عملے کی سطح کا معاہدہ طے پاگیا ہے، یہ معاہدہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے'۔

اس میں مزید کہا گیا کہ 'بورڈ کی منظوری سے مشروط تقریباً ایک ارب 17 کروڑ ڈالر دستیاب ہوں گے، جس سے پروگرام کے تحت کُل ادائیگی تقریباً 4 ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی'۔

اپنے اعلان میں آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان میں آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر کی قیادت میں ایک ٹیم نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو حتمی شکل دی۔

آئی ایم ایف نے کہا کہ بات چیت کے دوران اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ وہ اپنی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کو جون 2023 کے آخر تک بڑھانے پر غور کرے گا، جس کی مالیت اس وقت 6 ارب ڈالر ہے اور اس کے حجم کو 7 ارب ڈالر تک پہنچانے کے لیے اسے 70 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک بڑھانا پڑے گا۔

بیان میں وضاحت کی گئی کہ یہ فیصلہ پروگرام کے نفاذ میں معاونت، مالی سال 23-2022 میں پاکستان کی اعلیٰ مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے اور اضافی فنانسنگ کو متحرک کرنے کے لیے لیا گیا۔

دریں اثنا وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر معاہدے کی کاپی شیئر کی ہے۔

مفتاح اسمٰعیل نے اپنی ٹوئٹ میں بتایا کہ آئی ایم ایف، پاکستان کو ساتویں اور آٹھویں قسط کی مد میں ایک ارب 17 کروڑ ڈالر فراہم کرے گا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پانے کے لیے کاوشوں پر وزیراعظم، ساتھی وزرا، سیکریٹریز اور فنانس ڈویژن کا شکریہ ادا کیا۔

علاوہ ازیں آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ عالمی مہنگائی اور اہم فیصلوں میں تاخیر سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے، زائد طلب کے سبب معیشت اتنی تیز تر ہوئی جو بڑے مالی اور بیرونی خسارے کا باعث بنی اور افراط زر میں اضافہ ہوا۔

اس تناظر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے معیشت کو مستحکم کرنے اور اس کے پالیسی اقدامات کو آئی ایم ایف کے تعاون سے چلنے والے پروگرام کے مطابق کرنے کے لیے ترجیحات کا خاکہ پیش کیا۔

ان ترجیحات میں رواں مالی سال کے بجٹ کا مستقل نفاذ، پاور سیکٹر میں اصلاحات، مہنگائی کو معتدل سطح پر لانے کے لیے مانیٹری پالیسی پر کام، غربت میں کمی اور گورننس کو مضبوط بنانا شامل ہیں۔

مالی سال 23-2022 کے بجٹ کے حوالے سے آئی ایم ایف نے کہا کہ اس کا مقصد جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کے بنیادی سرپلس کو ہدف بنا کر حکومت کی بڑے قرضے لینے کی ضروریات کو کم کرنا ہے۔

آئی ایم ایف نے واضح کیا کہ اس سے پہلے طے شدہ منصوبے کے کمزور نفاذ کی وجہ سے پاکستان کے پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کا بہاؤ مالی سال 2022 میں نمایاں طور پر بڑھ کر تقریباً 850 ارب روپے تک پہنچنے کی توقع ہے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ 'مالی سال 2023 کے لیے حکام نے بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 364 ارب روپے مختص کیے ہیں تاکہ مزید 90 لاکھ خاندانوں کو اس پروگرام کا حصہ بنایا جائے۔

آئی ایم ایف اعلامیے میں کہا گیا کہ کرپشن کنٹرول کرنے کے لیے حکام الیکٹرانک طور پر اثاثے ظاہر کرنے پر کام کررہے ہیں، انسداد بدعنوانی کے اداروں (بشمول قومی احتساب بیورو) کا ایک جامع جائزہ لینے کا منصوبہ بھی بنایا جارہا ہے تاکہ بدعنوانی کی تحقیقات اور ان کیسز کے خلاف قانونی کارروائی کی کارکردگی کو بڑھایا جا سکے۔

قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل نے بتایا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہماری بات چیت مکمل ہو چکی ہے اور وہ اب اپنی داخلی منظوری کے عمل سے گزر رہے ہیں، اس حوالے سے حتمی اعلان اب آئی ایم ایف کی جانب سے آنا چاہیے۔

انہوں نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف نے اسلام آباد کو میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فسکل پالیسیز (ایم ای ایف پی) دیا تھا جس کا جواب دے دیا گیا تھا، آئی ایم ایف نے ہماری تجویز کردہ کچھ تبدیلیوں کو قبول کیا اور بہت سی دیگر چیزوں پر اتفاق نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات طے پاگئے

انہوں نے کہا تھا کہ 'بات چیت کے بعد آخر کار ہم نے آئی ایم ایف کے لیے قابل قبول ایم ای ایف پی پر اپنی رضامندی ظاہر کردی، دونوں فریقین کے درمیان مزید کوئی حل طلب معاملہ باقی نہیں رہا'۔

اسلام آباد میں آئی ایم ایف کی مقامی نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

پاکستان 2019 میں آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بنا تھا لیکن آج تک اسے صرف نصف فنڈز جاری کیے گئے ہیں کیونکہ پاکستان کو معاہدے کے مطابق مطلوبہ اہداف کے حصول میں چیلنجز کا سامنا رہا۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کا بجٹ کے حوالے سے مزید اضافی اقدامات کا مطالبہ

آخری بار قرضوں کی قسط فروری میں جاری ہوئی تھی اور اگلی قسط مارچ میں نظرثانی کے بعد آنی تھی لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے ایندھن کی قیمتوں میں ناقابل عمل سبسڈی متعارف کروائی جو مالیاتی اہداف اور آئی ایم ایف پروگرام میں رکاوٹ بن گئی۔

نئی مخلوط حکومت نے پیٹرول کی قیمتوں پر سبسڈی کو ختم کردیا جس کے نتیجے میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ایک ماہ کے دوران 66 فیصد اور 92 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔   ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اب آئی ایم ایف کی جانب سے مقرر کردہ تمام شرائط اور پیشگی اقدامات کو قبول یا مکمل کرلیا ہے یا ان پر کام شروع کردیا ہے، ان میں سے کچھ پر اسٹرکچرل بینچ مارکس کے شیڈول کے تحت معمول کے مطابق عمل درآمد جاری رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف معاہدے میں پیشرفت کے بعد ڈالر کی قدر میں 3 روپے 80 پیسے کی کمی

حکام کو توقع ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے کسی بھی وقت عملے کی سطح کے معاہدے کے بارے میں باضابطہ اعلان سامنے آجائے گا جس کے بعد اگلے ماہ کے شروع میں ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے ساتھ ساتھ فنڈز بھی فراہم کردیے جائیں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ اس بار آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت معمول سے زیادہ سخت رہی اور اس کے عملے نے بار بار طے شدہ معاملات پر سوالات اٹھائے، بظاہر پاکستان 2 سب سے بڑے شیئر ہولڈرز یعنی امریکا اور چین کی پالیسیوں کے درمیان جھولتا نظر آیا۔

21 جون کو پاکستان کے حکام اور آئی ایم ایف کا عملہ رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ پر ایک مفاہمت تک پہنچے جس کے تحت قرض پروگرام کی بحالی کے لیے حکام نے 436 ارب روپے مزید ٹیکس اور پیٹرولیم لیوی کو بتدریج بڑھا کر 50 روپے فی لیٹر کرنے کا عزم ظاہر کیا۔

مزید پڑھیں: ’آئی ایم ایف معاہدے کے باعث ایندھن کی قیمتیں بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا‘

اس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کے عملے نے ایک بیان میں تسلیم کیا کہ وفاقی بجٹ کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے، اس کے تحت پاکستان نے صوبوں سے 750 ارب روپے مرکز کو نقد سرپلس میں فراہم کرنے کا تحریری وعدہ فراہم کیا تاکہ مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 4.9 فیصد کے اندر اندر رکھا جا سکے اور 152 ارب روپے کا بنیادی مالیاتی سرپلس پیدا کرنے میں مدد ملے۔

پاکستان کو اب بجلی کے نرخوں میں 7.91 روپے فی یونٹ اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ماہانہ فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ کی بروقت ادائیگی کی بھی ضرورت ہے۔

بجلی کی قیمتوں میں جولائی اور اگست میں فی یونٹ 3.50 روپے اور ستمبر اکتوبر کے بلنگ سائیکل میں تقریباً 1 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف نے قرض کی چھٹی قسط کی منظوری دے دی، شوکت ترین

نظرثانی شدہ ایم ای ایف پی کے تحت 39 ماہ کے آئی ایم ایف قرض پروگرام کو ایک سال کے لیے ستمبر 2023 تک بڑھایا جائے گا اور اسے 6 ارب ڈالرز کے اصل حجم کی بجائے 7 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا جس میں سے 3 ارب ڈالر فراہم کیے جاچکے ہیں۔

حکام نے کہا کہ قرض پروگرام کے استحکام کے لیے اقدامات کا مشکل ترین حصہ مکمل ہو چکا ہے، پاکستان اب اس حوالے سے درپیش خطرے سے باہر ہے لیکن پروگرام کی پوری مدت میں مالیاتی اہداف کو یقینی بنانے کے لیے ذمہ دارانہ ٹیکس اور اخراجات کی حکمت عملی اپنانا ہوگی، کوئی بھی غلطی بہت محنت سے حاصل ہونے والے ان فوائد کو واپس چھین سکتی ہے۔

حکومت نے 10 جون کو قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بجٹ میں پہلے ہی 1.25 کھرب روپے مالیت کی مالیاتی ایڈجسٹمنٹ متعارف کرائی تھی لیکن یہ آئی ایم ایف کے نزدیک قابل قبول نہیں تھی۔

اس کے بعد حکومت نے 24 جون کو تقریباً 466 ارب روپے کے اضافی ٹیکس کے اعلانات کیے تاکہ ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے پیش نظر قرض پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مفاہمت تک پہنچا جا سکے۔

تبصرے (0) بند ہیں