دعا زہرہ کیس: نکاح خواں کو دلہا اور دلہن سے عمر کا دستاویزی ثبوت طلب کرنا چاہیے، عدالت

اپ ڈیٹ 15 جولائ 2022
عدالت نے کہا کہ دعا زہرہ کیس میں نکاح خواں حافظ مصطفیٰ نے ضروری دستاویزات کی تصدیق نہیں کی — فائل فوٹو: رائٹرز
عدالت نے کہا کہ دعا زہرہ کیس میں نکاح خواں حافظ مصطفیٰ نے ضروری دستاویزات کی تصدیق نہیں کی — فائل فوٹو: رائٹرز

سیشن کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ نکاح خواں (شادی رجسٹرار) کو صرف دولہا اور دلہن کی عمر کے حوالے سے زبانی اندراجات کو قبول نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے ان کی عمر کی مستند سرکاری دستاویزی ثبوت کے ذریعے تصدیق کرنی چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (شرقی) الیاس نے یہ مشاہدہ ایک تفصیلی حکم نامے میں کیا جس میں عالم دین حافظ غلام مصطفیٰ کی درخواست ضمانت خارج کردی گئی جو ظہیر احمد کے ساتھ نوعمر دعا زہرہ کی شادی کے الزام میں مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: غلطی کی معافی مانگتی ہوں، والدین بھی دل بڑا کرکے معاف کردیں، دعا زہرا

اس وقت عدالتی حراست میں موجود حافظ مصطفیٰ نے جیل سے رہائی کے لیے درخواست دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ مبینہ اغوا کار دعا زہرہ خود اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر لاہور چلی گئی تھی اور ظہیر کے ساتھ نکاح کیا تھا۔

وکیل دفاع آفتاب بانو نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مغوی دعا زہرہ بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے اور وہ اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے۔

تاہم وکیل نے کہا کہ ان کی مرضی کی شادی کا کوئی عینی شاہد نہیں ہے جو مبینہ طور پر ان کے مؤکل حافظ مصطفیٰ کی نگرانی میں ہوئی تھی جس پر اصغر علی نے بھی مبینہ طور پر بطور گواہ دستخط کیے تھے۔

تاہم جج نے نوٹ کیا کہ نکاح کی رجسٹریشن کے حوالے سے تمام نکاح رجسٹرار یا دیگر افراد جو شادیاں کرتے ہیں، نکاح کے وقت اسناد کی جانچ پڑتال کرنے کی قانونی ذمہ داری پوری کرنے کے پابند ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بیٹی کی تحویل کیلئے دائر دعا زہرہ کے والد کی درخواست پر نوٹس جاری

جج نے اپنے حکم میں کہا کہ عمر کے تعین کے لیے محض زبانی اندراجات کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے جب تک کہ فریقین سے شادی کی عمر کا کوئی ثبوت نہ ہو جو کہ کسی مستند دستاویز کی شکل میں ہونا چاہیے جسے قومی شناختی کارڈ یا (ب) فارم کی شکل میں نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کی طرف سے جاری کیا گیا ہو، یا مجاز اتھارٹی کے ذریعے جاری کردہ اسکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ، اوسیفکیشن ٹیسٹ پر مبنی میڈیکل سرٹیفکیٹ اور یونین کونسل کے ذریعے درست طور پر جاری کردہ پیدائش کا سرٹیفکیٹ وغیرہ پیش کیا جائے۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ موجودہ کیس میں یہ ثابت ہوا کہ درخواست گزار حافظ مصطفیٰ نے ضروری دستاویزات کی تصدیق نہیں کی اور اسی لیے نکاح کے گواہ اصغر علی بھی قابل اعتبار نہیں۔

جج نے مشاہدہ کیا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 364-اے کے تحت جرم قابل ضمانت نہیں ہے اور یہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 497 کی ممنوعہ شق کے زمرے میں آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گھناؤنا جرم اخلاقی پستی کا حامل ہے جو متاثرہ کی پوری نفسیات کو تباہ کر کے اسے اور اس کے خاندان کو شرمندگی میں مبتلا کر سکتا ہے، یہ ایک بدنما داغ ہے جس کا خاندان کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ سب سے زیادہ نفرت انگیز جرم ہے، اس طرح کا بھیانک جرم صرف فرد نہیں بلکہ معاشرے کے ضمیر کے بھی خلاف ہے۔

جج نے نتیجہ اخذ کیا کہ درخواست گزار اس مرحلے پر ضمانت کی رعایت کا حقدار نہیں ہے، اس لیے درخواست ضمانت خارج کر دی گئی۔

مزید پڑھیں: دعا زہرہ کے پہلے انٹرویو پر نیا تنازع کھڑا ہوگیا

دریں اثنا ایک اور سیشن عدالت نے جمعرات کو ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (تفتیش) اور ایس ایس پی شرقی (تحقیقات) کو دعا زہرہ اغوا کیس کے تفتیشی افسر کو تبدیل کرنے کے لیے 'دوسری' درخواست پر نوٹس جاری کیا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (شرقی) محمد محبوب اعوان نے پولیس کے اعلیٰ افسران کو اس سلسلے میں تفصیلی رپورٹس/تبصروں کے ساتھ 16 جولائی کو پیش ہونے کو بھی کہا۔

دعا کے والد سید علی مہدی کاظمی نے ڈی ایس پی شوکت علی شاہانی کو تبدیل کرنے کی درخواستوں پر غور نہ کرنے پر ایڈیشنل آئی جی (انویسٹی گیشن) اور ایس ایس پی کے خلاف فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کی دفعہ 22-اے اور بی کے تحت درخواست دائر کی تھی۔

ان کے وکیل جبران ناصر نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزم ظہیر احمد نے 16 اپریل کو ان کے مؤکل کی بیٹی کو کراچی کے گھر سے اغوا کیا اور لاہور لے گئے، انہوں نے مزید کہا کہ ایک میڈیکل بورڈ نے دعا زہرہ کی عمر 15 سے 16 سال کے درمیان بتائی تھی، جو 15 سال کے قریب ہے۔

انہوں نے عرض کیا کہ کیس کے پہلے تفتیشی افسر انسپکٹر سعد احمد تھہیم نے نادرا کی دستاویزات اور پاسپورٹ کے مطابق دعا کی عمر 14 سال ہونے کے حوالے سے اطمینان کے بعد عدالت میں ایک عبوری چارج شیٹ دائر کی تھی جس میں اسمگلنگ کی روک تھام کی دفعہ 3 (آئی) کا اضافہ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: دعا زہرا کے والد کی تفتیشی افسر تبدیل کرنے کی درخواست مسترد

تفتیشی افسر سعد احمد نے ظہیر، شبیر احمد، مولوی حافظ غلام مصطفیٰ اور اس شادی کے عینی شاہد اصغر علی کو بھی مفرور ظاہر کیا تھا اور سمجھداری سے فیصلہ کیا تھا کہ مغوی کا کوئی بیان قلمبند نہ کیا جائے۔

وکیل نے کہا کہ پہلے تفتیشی افسر نے 'مخلصانہ کوششوں کے بعد' نکاح خواں اور گواہ کو گرفتار کیا، انہوں نے مزید کہا کہ اس نے کراچی کے مجسٹریٹ کو بھی درخواست دی تھی کہ دعا کی اصل عمر کا تعین کرنے کے لیے اس کے اوسیفیکیشن ٹیسٹ کا حکم دیا جائے، لیکن عدالت نے انکار کر دیا۔

ایڈووکیٹ جبران ناصر نے الزام لگایا کہ موجودہ تفتیشی افسر شوکت علی شاہانی جان بوجھ کر 9 جون کو کراچی کے متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے میں ناکام رہے تاکہ دولہے کے 10 زیر حراست رشتہ داروں کا ریمانڈ حاصل کیا جا سکے جنہیں ظہیر کی مبینہ سہولت کاری کے الزام میں 3 جون کو گرفتار کیا گیا تھا، اس کے بعد تفتیشی افسر نے عدالت کو بغیر کسی اعتراض کے چھوڑ دیا لیکن انہیں ذاتی بانڈز کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 63 کے تحت کیس سے بری کر دیا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ مرکزی ملزم ظہیر کی جانب سے تفتیشی افسر نے آئی او کو اپنا موبائل نمبر فراہم کرنے کے باوجود وہ دعا کے مبینہ اغوا کے دوران ان کے ٹھکانے کی تصدیق کرنے کے لیے 'جان بوجھ کر' کال ڈیٹا ریکارڈ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ میڈیکل بورڈ کی جانب سے دعا کی عمر کے تعین کے لیے کا تازہ ٹیسٹ کروانے کے باوجود تفتیشی افسر شاہانی نے جان بوجھ کر دعا کی عمر کی 'عارضی تشخیص' پر انحصار کرتے ہوئے کیس کو سی کلاس میں نمٹانے کی سفارش کرتے ہوئے تفتیشی رپورٹ داخل کی۔

مزید پڑھیں: ’دعا زہرہ کی عمر15 سے 16 سال ہے‘، میڈیکل بورڈ کی رپورٹ عدالت میں جمع

انہوں نے مزید کہا کہ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ دعا کی عمر 16 سال سے کم تھی، تفتیشی افسر اب تک مغوی کی بازیابی کے لیے کوئی کوشش کرنے میں بری طرح ناکام رہے، وہ کم عمری کی شادی کے دوسرے گواہ شبیر احمد کو بھی گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔

لہٰذا درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ تفتیشی افسر شوکت علی شاہانی کی جگہ کسی غیرجانبدار اور قابل افسر کو مقدمے کی تفتیش کی ذمے داری سونپی جائے جو ایس پی کے عہدے سے نیچے نہ ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں