کراچی: جزلان قتل کیس کے دو ملزمان عبوری ضمانت مسترد ہونے کے بعد فرار

18 جولائ 2022
جزلان کو بحریہ ٹاؤن کراچی میں قتل کیا گیا تھا—فائل فوٹو:ڈان
جزلان کو بحریہ ٹاؤن کراچی میں قتل کیا گیا تھا—فائل فوٹو:ڈان

کراچی کے علاقے بحریہ ٹاؤن میں قتل ہونے والے نوجوان جزلان کے کیس کے دو ملزمان عدالت سے عبوری ضمانت مسترد ہونے کے بعد فرار ہوگئے۔

مرکزی ملزم حسنین فیض، ان کے بھائی عرفان فیض، احسان فیض، ان کے والد محمد فیض اور دوست انشال کو بحریہ ٹاؤن کراچی میں 25 مئی کو تنازع پر نوجوان جزلان کو گولیاں مار کر قتل کرنے کے مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جزلان قتل کیس، ایک اور ملزم ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر نے محمد فیض اور ان کے مفرور ملزم احسان کی عبوری ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی اور فیصلہ سنایا۔

جج نے کہا کہ درخواست گزار اپنی عبوری ضمانت یقینی بنانے میں ناکام رہے، اسی لیے ان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے درخواست خارج کردی۔

عینی شاہدین اور پولیس نے بتایا کہ دونوں ملزمان ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوئے، جو کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

گزشتہ سماعت میں تفتیشی افسر انسپکٹر اسلم جٹ نے عبوری چالان جمع کرایا تھا اور قرار دیا تھا کہ مرکزی ملزم کے والد، ان کے تین بیٹوں اور ان کے دوستوں نے لائسنس یافتہ پستول سے مبینہ طور پر جزلان کو قتل کیا اور جرم سے بچنے کے لیے شواہد اور اسلحہ چھپانے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت نے جزلان قتل کیس میں نامزد ملزم کو بچہ جیل بھیج دیا

یاد رہے کہ 25 مئی کو بحریہ ٹاؤن کراچی میں ایک تنازع پر ملزمان نے 19 سالہ جزلان فیصل کو گولی مار کر قتل جبکہ ان کے دوست شاہ میر علی کو زخمی کردیا تھا۔

مقتول نوجوان نے مشتبہ افراد کے رات گئے بحریہ ٹاؤن میں بائیک چلانے پر اعتراضات اٹھائے تھے۔

مقتول کے چچا کی مدعیت پر گڈاپ سٹی پولیس اسٹیشن میں منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کے الزام میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل کرنا ) 324 (اقدام قتل)، 34 (مشترکہ ارادہ) 109 ( جرم میں معاونت کی سزا) اور 114 (جرم کے ارتکاب کے وقت معاون کی موجودگی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں مقتول کے چچا عارف صابر نے کہا تھا کہ وہ ہارون بنگلوز میں اپنے گھر پر تھے جب انہیں شاہ میر کا فون آیا جس نے انہیں بدھ کی رات 2 بجے کے قریب آغا خان یونیورسٹی ہسپتال پہنچنے کو کہا تھا۔

انہوں نے ایف آئی آر میں کہا تھا کہ جب وہ ہسپتال پہنچے تو ان کا بھتیجا جزلان اور شاہ میر گولیوں کے زخموں کے ساتھ ایمرجنسی وارڈ میں داخل تھے، جزلان بےہوش اور وینٹی لیٹر پر تھا مگر شاہ میر بولنے کے قابل تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 19 سالہ جزلان کے قتل میں ملوث ایک اور ملزم گرفتار

ان کا کہنا تھا کہ شاہ میر نے بتایا کہ وہ جزلان کے ہمراہ اپنے دوست زرغام کی کار میں ایک رشتہ دار ابراہیم سے ملنے کے بعد واپس آرہے تھے، وہ جناح ایونیو کی طرف سفر کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک نوجوان کو انتہائی خطرناک انداز میں موٹرسائیکل پر سوار دیکھا جو ان کی گاڑی کو ٹکر مارنے سے تھوڑے سے فاصلے سے بچ گیا۔

انہوں نے ایف آئی آر میں مزید بتایا تھا کہ شاہ میر نے کہا کہ جب وہ بحریہ ٹاؤن کے ایفل ٹاور پر پہنچے تو کار میں سوار مشتبہ افراد نے دوسری گاڑی سے کراس فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں شاہ میر اور جزلان کو گولیاں لگیں اور ان کا دوست زرغام معمولی زخمی ہوا، جزلان کو سر میں گولی لگی تھی۔

درخواست گزار نے کہا تھا کہ فائرنگ کے بعد بہت لوگ وہاں پہنچ گئے جو انہیں بحریہ ٹاؤن کے قریبی ہسپتال لے گئے اور بعد میں انہیں آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں جزلان دوران علاج جاں بحق ہوگیا۔

تبصرے (0) بند ہیں