مالی سال 2022 میں گاڑیوں کی کِٹس کی درآمدات میں 52 فیصد اضافہ

اپ ڈیٹ 24 جولائ 2022
اِن کٹس کا درآمدی بل مالی سال 2022 کے صرف 8 ماہ میں ایک ارب ڈالر تک پہنچ گیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
اِن کٹس کا درآمدی بل مالی سال 2022 کے صرف 8 ماہ میں ایک ارب ڈالر تک پہنچ گیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

مقامی طور پر اسمبل شدہ گاڑیوں کی مکمل اور نیم تیار شدہ کِٹس کا درآمدی بل مالی سال 2022 میں ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جو گزشتہ سال کے ایک ارب 11 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 52 فیصد زیادہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درآمدی بل میں یہ اضافہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں گاڑیوں کی طلب میں اضافہ اور گاڑیوں میں استعمال ہونے والی کٹس کی لوکلائزیشن (مقامی سطح پر تیاری) میں کمی دیکھی جارہی ہے۔

مالی سال 2022 میں گاڑیوں کی فروخت میں 55 فیصد اضافے کے ساتھ 2 لاکھ 34 ہزار 180 یونٹس کی فروخت ان کِٹس کے درآمدی بل میں اضافے کا جواز فراہم کرتی ہے کیونکہ صارفین نے بلند شرح سود کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی قیمتوں اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے آٹو فنانسنگ پر پابندی کے باوجود گاڑیوں کی خریداری میں کوئی کمی ظاہر نہیں کی۔

مقامی طور پر تیار کی جانے والی گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی طلب اس قدر شدید رہی کہ ان کِٹس کا درآمدی بل مالی سال 2022 کے صرف 8 ماہ (جولائی تا فروری) میں ایک ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جبکہ یہ 2021 کے مکمل مالی سال کے دوران ایک ارب 11 کروڑ ڈالر رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آٹو اسمبلرز گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ کرنے کو تیار

آٹو سیکٹر کے مطابق ’آٹو پالیسی 2021-2016‘ نے یقینی طور پر ملک کے آٹو سیکٹر کے منظر نامے کو تبدیل کر دیا لیکن صرف 5 فیصد لوکلائزیشن کے ساتھ نئے آنے والوں کو مقامی سطح پر گاڑیاں اسمبل کرنے کی اجازت دینے کی پالیسی کے سبب دونوں قسم کی کِٹس کے درآمدی بل میں اضافہ ہوا جس نے قومی خزانے کو شدید نقصان پہنچایا۔

باقی نقصان پہلے سے موجود اسمبلرز نے پہنچایا جنہوں نے مقامی طور پر تیار کیے گئے کم پرزوں کے ساتھ گاڑیوں کے نئے ماڈلز متعارف کروائے۔

مئی 2022 میں پاک سوزوکی موٹر کمپنی لمیٹڈ (پی ایس ایم سی ایل) نے مارکیٹ کو بتایا کہ سوئفٹ میں مقامی طور پر تیار کردہ پرزوں کا استعمال 35 فیصد ہے، اس کے بعد کلٹس میں 51 فیصد، ویگن آر میں 60 فیصد، 660 سی سی آلٹو میں 62 فیصد، بولان میں 72 فیصد اور راوی میں 68 فیصد ہے جبکہ ٹویوٹا کرولا اور یارس میں مقامی طور پر تیار کردہ پرزوں کا استعمال 65 فیصد سے زائد ہے۔

مکمل اور نیم تیار شدہ کٹس کا درآمدی بل کم ہونے کے کوئی واضح آثار نہیں ہیں کیونکہ نئے آنے والے اسمبلز، جن کے پروجیکٹ ’آٹو پالیسی 2021-2016‘ کے تحت منظور کیے گئے تھے، وہ اب مقامی طور پر بنائے گئے پرزوں کی بہت کم مقدار کے ساتھ گاڑیاں اسمبل کرتے رہیں گے۔

مزید پڑھیں: گاڑیوں کے مقامی اسمبلرز ایڈوانس ٹیکس میں اضافے سے ناخوش

تاہم پہلے سے موجود جاپانی اسمبلرز کی جانب سے متعارف کرائی جانے والی گاڑیوں کے نئے ماڈلز میں مقامی طور پر تیار کردہ پرزوں کو استعمال کرنے میں کچھ وقت درکار ہوگا۔

ایک فروخت کنندہ نے کہا کہ 5 دہائیوں پرانے آٹو سیکٹر نے گاڑیوں کی مقامی سطح پر تیاری میں مقامی طور پر بنائے گئے پارٹس کے استعمال کو بہتر بنانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ نئے آنے والے اسمبلرز نے چھوٹی گاڑیاں متعارف کرانے کی بجائے ایس یو ویز متعارف کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کی جس کے نتیجے میں مکمل اور نیم تیار شدہ کٹس کی درآمدات میں اضافہ ہوا۔

مہران کمرشل انٹرپرائز کے ڈائریکٹر مشہود علی خان نے کہا کہ نئے آنے والے اسمبلرز کی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ موجودہ اسمبلرز کے نئے ماڈلز میں بھی لوکلائزیشن نہ ہونے کی وجہ آٹو پالیسی کے تحت دی گئی چھوٹ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک کی نئی پالیسی کے بعد گاڑیاں خریدنے والوں کی مشکلات میں اضافہ

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مثبت پہلو ہے کہ ملک میں چین اور جنوبی کوریا سے آٹو سیکٹر میں بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی لیکن اس کا منفی پہلو گاڑیوں میں مقامی طور پر بنائے گئے پارٹس کا بہت کم استعمال ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مال برداری کے نرخوں میں زبردست اضافے کے باوجود گاڑیوں کی بہتر معیار کو یقینی بنانے کے لیے گزشتہ چند ماہ میں اسمبلرز نے ان کٹس کی درآمد کو بہتر بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔

مشہود علی خان نے یاد دہانی کروائی کہ 1990 کی دہائی سے لے کر اب تک کم از کم 4 بار گاڑیوں کی فروخت میں شاندار اضافہ ریکارڈ کرنے کے بعد کمی دیکھنے میں آئی۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ گاڑیوں کی بلند قیمتوں، شرح سود اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے آٹو فنانسنگ پر عائد پابندیوں کی وجہ سے یہ صورتحال رواں مالی سال میں دوبارہ پیدا ہونے کا امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں