کراچی: تجاوزات کےخلاف آپریشن کے دوران ہنگامہ آرائی پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل

اپ ڈیٹ 31 جولائ 2022
نوٹیفکیشن کے مطابق واقعے میں ملوث افسران کے خلاف انکوائری کے بعد مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی — فائل فوٹو: شفیع بلوچ
نوٹیفکیشن کے مطابق واقعے میں ملوث افسران کے خلاف انکوائری کے بعد مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی — فائل فوٹو: شفیع بلوچ

کراچی کے علاقے سچل غازی گوٹھ میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کے واقعے پر سندھ حکومت نے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے دیا۔

چیف سیکریٹری سندھ محمد سہیل اقبال راجپوت کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق حکومت سندھ نے کمشنر کراچی محمد اقبال میمن کو انکوئری افسر مقرر کرتے ہوئے تجاوزات کےخلاف آپریشن اور افسران کے کردار پر تفتیش کی ہدایت دی ہے۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ انکوائری افسر 3 روز میں انکوائری مکمل کر کے رپورٹ جمع کرائیں جس میں واقعے میں ملوث افسران کا کردار واضح کیا جائے۔

نوٹی فکیشن میں مزید کہا گیا کہ واقعے میں ملوث افسران کے خلاف انکوائری کے بعد مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: تجاوزات کے خلاف آپریشن، صدر میں ٹھیلے اور پتھارے دوبارہ لگ گئے

قبل ازیں چیف سیکریٹری سندھ سہیل راجپوت کی جانب سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنے والے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہشام مظہر، اسسٹنٹ کمشنر گلزار ہجری ندیم قادر کھوکھر، مختیارکار گلزار ہجری جلیل بروہی، تپہ دار گلزار ہجری عاشق تنیو اور انچارج اینٹی انکروچمنٹ ایسٹ محمد احمد کی معطلی کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز صفورا گوٹھ کے قریب اسکیم 33 کے علاقے سچل غازی گوٹھ میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران 2 پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 5 افراد گولی لگنے سے زخمی ہوگئے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا کہ زمین پر قابض افراد کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار گولی لگنے سے زخمی ہوگئے، دوسری جانب رہائشیوں نے الزام عائد کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے آنسو گیس اور شیلنگ کے نتیجے میں 2 خواتین اور ایک 15 سالہ لڑکا زخمی ہوگئے۔

حکام نے ان واقعات کے بعد ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) ایسٹ کے حکم پر تجاوزات کے خلاف شروع کیا جانے والا آپریشن روک دیا۔

ترجمان پولیس نے زخمی پولیس اہلکاروں کی شناخت شاہراہ فیصل پولیس اسٹیشن میں تعینات کانسٹیبل منظور خان اور انسداد تجاوزات اسٹیبلشمنٹ میں تعینات کانسٹیبل ذوالفقار شرف الدین کے نام سے کی۔

مزید پڑھیں: کراچی: الہ دین پارک میں انسداد تجاوزات آپریشن، پولیس اور مظاہرین میں تصادم

چھیپا کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ 2 خواتین ( تسلیم یوسف، زینت بشیر) اور 15 سالہ لڑکا نور ملک بھی واقعے میں زخمی ہوئے۔

زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا، پولیس سرجن سمیہ سید نے بتایا کہ زخمی لڑکا اور دونوں خواتین کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لڑکے کو دائیں ران میں ایک گولی لگی ہے جبکہ تسلیم اور زینت کو چہرے، کندھے اور دھڑ پر متعدد گولیاں لگیں۔

3 دیہات میں تجاوزات کے خلاف کارروائی کی درخواست

ایس ایس پی شرقی سید عبدالرحیم شیرازی نے بتایا کہ ڈی سی شرقی نے 22 جولائی کو پولیس اور دیگر حکام کو لکھے گئے خط میں گلزار ہجری میں 3 دیہات سونگل، دوزن اور تھومنگ سے تجاوزات ہٹانے کے لیے کارروائی کی درخواست کی تھی۔

خط میں کہا گیا تھا کہ تینوں دیہات میں 26 سے 31 جولائی کے درمیان تجاوزات کے خلاف آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا تھا، ڈی سی نے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے انسداد تجاوزات مہم کے لیے مناسب نفری اور مزدوروں کے ساتھ مشینری کی فراہمی کی درخواست کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ساؤتھ پارک تجاوزات کیس: کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے سربراہ عدالت طلب

ایس ایس پی نے مزید کہا کہ اینٹی انکروچمنٹ فورس نے تجاوزات کو مسمار کرنا شروع کیا اور مقامی لوگوں کے احتجاج سے مقامی پولیس نے انہیں تحفظ فراہم کیا۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج اس وقت پُرتشدد ہوگیا جب کچھ جرائم پیشہ عناصر مظاہرین کے ساتھ شامل ہوگئے اور انہوں نے اینٹی انکروچمنٹ فورس پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔

ایک اور افسر اورنگزیب خٹک نے کہا کہ قبضہ گروپوں اور کچھ لسانی جماعتوں کے کارکنان نے نعرے لگاتے ہوئے پولیس اور اینٹی انکروچمنٹ فورس پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار زخمی ہو ئے۔

مظاہرین کا مؤقف

ایک مقامی این جی او سے تعلق رکھنے والے محبوب عباسی (جو مظاہرین کے رہنماؤں میں سے ایک ہیں) نے کہا کہ ’بلڈر مافیا‘ نے غازی گوٹھ پر نظریں جمائی ہوئی ہیں اور پولیس اور انتظامیہ مبینہ طور پر ان کی حمایت کر رہی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس مافیا نے 2016 میں بھی گاؤں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن مکینوں کو عدالت سے حکم امتناع مل گیا۔

مزید پڑھیں: تجاوزات کے خلاف آپریشن کا نشانہ صرف غریب ہی کیوں؟

انہوں نے دعویٰ کیا کہ غازی گوٹھ 110 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور مافیا مبینہ طور پر 4 سے 5 ایکڑ پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، رہائشیوں کے پاس ’لیز پیپرز‘ ہیں اور انہیں تمام شہری سہولیات حاصل ہیں۔

مکینوں نے 3 منزلہ مکانات بنا رکھے ہیں، پولیس اور اینٹی انکروچمنٹ فورس رہائشیوں کو ان کی تجاوزات کے خلاف مہم کے حوالے سے کوئی کاغذات نہیں دکھا رہی۔

محبوب عباسی نے دعویٰ کیا کہ مقامی پولیس کے تعاون سے اینٹی انکروچمنٹ فورس نے دکانوں اور مکانات کو مسمار کرنا شروع کر دیا، لوگوں نے مزاحمت کی تو پولیس نے مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: مکینوں کے احتجاج پر گجر و دیگر نالوں پر تجاوزات کے خلاف محدود آپریشن کا آغاز

انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ کئی روز سے پولیس نے آپریشن شروع کیا تھا اور رہائشیوں سمیت سیاسی اور سماجی کارکنوں کے خلاف 6 ایف آئی آر درج کی گئیں جبکہ 5 ایف آئی آر ان کے خلاف بھی درج کی گئیں۔

دریں اثنا ایک بیان میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید جلال محمود شاہ نے غازی گوٹھ میں تجاوزات کے خلاف مہم کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی مبینہ طور پر سندھی آبادی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور دوسرے ممالک اور صوبوں کے لوگوں کو سندھی گوٹھوں میں بسانے کے لیے اٹھائے گئے اس اقدام کی مذمت کرتی ہے۔

دریں اثنا کراچی پولیس چیف جاوید اوڈھو نے غازی گوٹھ میں خواتین پر تشدد کی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی شرقی کو انکوائری کرنے، ذمہ داری کا تعین کرنے اور ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔

انہوں نے کہا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، لوگوں کا تحفظ پولیس کی اولین ترجیح ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں