عراق میں مقبوضہ پارلیمنٹ کے قریب حریفوں کے مظاہرے، کشیدگی کا خدشہ

01 اگست 2022
حکام نے خبردار کیا ہے کہ احتجاج پرتشدد شکل اختیار کرسکتا ہے— فوٹو: اے ایف پی
حکام نے خبردار کیا ہے کہ احتجاج پرتشدد شکل اختیار کرسکتا ہے— فوٹو: اے ایف پی

عراق کے مشہور عالم دین مقتدیٰ الصدر کے حامی پارلیمنٹ پر قابض ہیں جبکہ ایوان کے باہر مخالف گروپس کی جانب سے مظاہروں کے اعلان کے بعد کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے، جس کے پیش نظر سیکورٹی فورسز دارالحکومت بغداد میں چوکس ہوگئی ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق عراق میں انتخابات کے 10 ماہ بعد ہی پیدا ہونے والے سیاسی تعطل نے ملک کے لاکھوں شہریوں کے حامی معروف مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کو ایک اور مضبوط گروپ کے سامنے لاکھڑا کیا، جس کے بارے میں تصور کیا جارہا ہے کہ وہ بھی ایران نواز ہے، جس کے بعد دونوں گروپس ایک دوسرے میں مقابل آگئے ہیں۔

مزید پڑھیں: کشیدہ صورتحال: کروشیا، عراق سے اپنے فوجی منتقل کرنے والا پہلا ملک

مقتدیٰ الصدر کے حامی ہفتے کے روز سے عام طور پر انتہائی سیکیورٹی والے گرین زون میں پارلیمنٹ پر قبضہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔

مظاہرین نے مخالف اتحاد کی جانب سے وزارت عظمیٰ کی نامزدگی کے جواب میں احتجاج شروع کردیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا عراق کے مقامی وقت کے مطابق شام 5 بجے کے قریب کوآرڈینیشن فریم ورک کے حامیوں کی طرف سے شروع ہونے والے احتجاج سے قبل سیکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے چوکیاں قائم کردی ہیں۔

مظاہرین اور ان کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر تبصرے کرتے ہوئے لکھا کہ مظاہرے کسی ایک گروہ کے خلاف نہیں کیے جا رہے۔

گرین زون کی طرف جانے والے راستوں میں احتجاج میں مزید شدت کا خدشہ ہے جبکہ مقتدیٰ الصدر کے ہزاروں حامی ابھی تک پارلیمنٹ کے سامنے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں اور صدر کی تصویریں اور جھنڈے لہرا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان سمیت مختلف ممالک کے شہریوں کو عراق کا سفر نہ کرنے کی ہدایت

مقتدیٰ الصدر کے ایک حامی نے عالم دین کے کارکنوں سے مطالبہ کیا کہ وہ عراق کے تمام صوبوں میں ایک ہی وقت میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کریں۔

رپورٹ کے مطابق کوآرڈینیشن فریم ورک میں صدر کے دیرینہ مخالف، سابق وزیر اعظم نوری المالکی کی پارٹی کے قانون ساز بھی شامل ہیں، یہ طاقتور گروپ ایران نواز سابق نیم فوجی اتحاد حشد الشعبی کی بھی نمائندگی کرتا ہے جو اب فوج میں باقاعدہ طور پر ضم ہو گیا ہے۔

حشد الشعبی کے ایک دھڑے کے سربراہ ہادی العامری نے تعمیری بات چیت کے ذریعے تنازعات کا حل تلاش کرنے کے مطالبے کو دہرایا ہے۔

انہوں نے میڈیا میں تناؤ کے ماحول کے خلاف خبردار کیا کہ اس کے ذریعے بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کا مطالبہ کرنے والے بیانات اور جوابی بیانات سے خدشات جنم لے رہے ہیں کیونکہ مظاہرین قابو سے باہر ہو سکتے ہیں اور تشدد کا باعث بن سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: عراق میں حکومت مخالف سول نافرمانی کی مہم، سرکاری دفاتر بند

کثیر النسلی ملک عراق میں حکومت کی تشکیل میں 2003 میں امریکی حملے کے بعد مطلق العنان سابق صدر صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد پیچیدہ مذاکرات شامل ہیں لیکن اس معاملے میں 10ماہ کے سیاسی تعطل نے ملک کو حکومت کے بغیر چھوڑ دیا ہے اور اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ ایک نیا وزیر اعظم منتخب ہوگا یا نیا صدر بنے گا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ ہفتوں یں مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کا بڑے پیمانے پر جمع ہونا، اس کی سیاسی طاقت کو واضح کرتا ہے، جس نے کبھی امریکی اور عراقی حکومتی افواج کے خلاف مسلح تحریک کی سربراہی بھی کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں