بھارت: کپڑے کے پلانٹ میں گیس کا اخراج، 112 خواتین کی حالت غیر

اپ ڈیٹ 03 اگست 2022
2020 میں کیمیکل پلانٹ میں گیس کے اخراج کے باعث 5 افراد ہلاک ہوگئے تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی
2020 میں کیمیکل پلانٹ میں گیس کے اخراج کے باعث 5 افراد ہلاک ہوگئے تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی

بھارتی ریاست آندھرا پردیش میں کپڑے بنانے والے ایک پلانٹ میں گیس کے اخراج کے بعد حالت غیر ہونے پر کم از کم 112 خواتین کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ منگل کی رات جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے ضلع اچیوتاپورم کے ایک پلانٹ میں کام کرنے والے 2 ورکرز نے متلی اور الٹی کی شکایت کی۔

سینئر پولیس اہلکار ایم اوپیندرا نے واقعے کی تفصیلات سے متعلق بتایا کہ گیس لیکیج سے متاثر ہونے والی تمام خواتین کی حالت بہتر ہے، واقعے میں کسی مزدور کے ہلاک ہونے کی اطلاع نہیں جبکہ گیس کے اخراج سے متعلق تحقیات جاری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: کیمیکل پلانٹ سے زہریلی گیس کا اخراج، 9 افراد ہلاک

بھارتی نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کی رپورٹ کے مطابق جون کے مہینے میں اسی علاقے میں اسی طرح کے ایک اور واقعے میں تقریباً 200 خواتین بے ہوش ہوگئی تھیں جنہیں طبی امداد کے لیے ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

2020 میں، اسی ریاست کے صنعتی بندرگاہی شہر وشاکھاپٹنم میں ایک کیمیکل پلانٹ میں گیس کے اخراج کے باعث کم از کم 5 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ حالت غیر ہونے پر سیکڑوں لوگوں کو طبی امداد کے لیے ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

1984 میں بھارتی تاریخ کا بدترین صنعتی حادثہ پیش آیا تھا جب وسطی بھارت کے شہر بھوپال میں کیڑے مار دوا بنانے والے ایک پلانٹ سے گیس کا اخراج ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارت: کیمیکل فیکٹری میں سیلنڈر پھٹنے سے 12 افراد ہلاک

یونین کاربائیڈ کی جانب سے چلائے جانے والے پلانٹ کے ارد گرد رہنے والے تقریباً 3 ہزار 500 لوگ زہریلی گیس لیک ہونے کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے تھے جبکہ اس مہلک گیس لیکیج کے مضر صحت اثرات کا آج تک لوگوں کو سامنا ہے۔

مہلک گیس لیکیج حادثے کے باعث آج بھی اس علاقے میں بچے غیر متوازن اور بگڑی ہوئی جسمانی حالت میں پیدا ہوتے ہیں، ان کے پاؤں اور ہاتھ کی انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں جبکہ اس زہریلی گیس کے اثرات سے ماؤں کے متاثر ہونے کی وجہ سے ان کے بچے نشوونما کی کمی کا شکار پیدا ہوتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں